نئے بلدیاتی نظام کے بعد نئے صوبوں کی ضرورت نہیں رہے گی
وزیراعظم عمران خان سے گزشتہ روز کراچی میں ایف پی سی سی آئی اور تاجر برادری کے وفد نے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے گفتگو کے دوران تاجروں اور صنعتکاروں کے نمائندوں کو بتایا کہ تحریک انصاف سندھ کی تقسیم کیخلاف ہے اس لئے بھی کہ نئے بلدیاتی نظام کے بعد ایک اور صوبے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اب تک نئے بلدیاتی نظام کے جو خدوخال سامنے آئے ہیں‘ اسکے بعد تو واقعی سندھ ہی کیا‘ پنجاب سے بھی کوئی نیا صوبہ نکالنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نئے صوبے بنانا کوئی آسان کام نہیں‘ بے تحاشا اخراجات اٹھتے ہیں۔ اگر اتنے ہی پیسے مجوزہ صوبوں یا صوبے میں شامل ہونیوالے علاقوں کی ترقی پر خرچ کئے جائیں تو انہیں دوسرے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے‘ لوگوں کو مسائل کے حل کیلئے کوسوں کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے لاہور یا اسلام آباد جانا پڑتا ہے‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کر دیا جائیگا تو یہ عذر یا اعتراض بھی ختم ہو جائیگا۔ صوبوں پر سیاست اب ختم ہونی چاہیے۔ جب حکومت کسی نئے صوبے کیلئے آئینی تقاضے پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو نئے صوبوں کا شوشہ کیوں چھوڑا جاتا ہے۔ ملک کا آئین ہر علاقے کی یکساں ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر آئین کی سختی سے پابندی کی جائے اور سیاست کرنا مقصود نہ ہو تو توڑ پھوڑ اور ضرب تقسیم کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ دودھ اور شہد کی نہریں کسی علاقے میں بھی نہیں بہہ رہیں اور نہ ہی کسی مخصوص علاقے میں ورلڈ کلاس یونیورسٹیاں‘ ہسپتال اور سڑکیں ہیں۔ ہر علاقے کے عوام یکساں نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ بھارت کی مثال دی جاتی ہے کہ بھارتی پنجاب سے تین صوبے پنجاب‘ ہریانہ اور ہماچل نکالے گئے۔ ان صوبوں کو بنے تقریباً تیس چالیس سال ہورہے ہیں‘ کوئی غیرمعمولی ترقی تو کسی صوبے میں نظر نہیں آئی بلکہ ہریانہ صوبہ تو بنالیا لیکن دارالحکومت ابھی بھی چندی گڑھ ہے جو پنجاب کا بھی صدر مقام ہے۔ علاقے صوبے بنانے سے ترقی نہیں کرتے بلکہ اصحاب اقتدار کی نیک نیتی اور محاصل کی منصفانہ تقسیم سے خوشحالی کی جانب بڑھتے ہیں۔