اتوار ‘ 20 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 26 ؍مئی 2019ء
وفاق کراچی میں سرکلر ٹرین (ٹرام) نہیں چلائے گا: شیخ رشید
اب وفاق کو اگر یہ ٹرام چلانی ہی نہیں تھی تو پھر یہ شیخ جی آئے روز سرکلر ریلوے لائن کلیئر کرانے اس پر قائم تجاوزات گرانے اور ہزاروں لوگوں کو دربدر کرنے کے بعد ریلوے ٹرالی پر بیٹھ کر فلم بنوانے کیوں نکلے تھے۔ اگر یہ سب کچھ کرنا تھا تو اب ٹرین چلانے سے یکدم یہ لاتعلقی کیوں۔ اتنا ہنگامہ کھڑا کر کے اب شیخ جی کہتے ہیں کہ ہمارا کام ریلوے ٹریک کو خالی اور صاف کر کے دینا تھا وہ دے دیا اب حکومت سندھ یہاں ٹرین چلائے۔ ادھر سندھ حکومت کے پہلے ہی ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں کہ وہ یہ نیا سفید ہاتھی کہاں پالتی پھرے گی۔ سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس شاہ نے تو شیخ رشید کے بیان پر فوری جواب دیتے ہوئے نہلے پہ دھلامارا ہے کہ معاہدے کے مطابق وفاقی حکومت یہ منصوبہ مکمل کر کے سرکلر ٹرین چلا کر صوبائی حکومت کے سپرد کرے گی۔ ہم یہ دردسری نہیں لے سکتے۔ سنبھالو پاندان اپنا۔ یوں یہ بدنصیب سرکلر ٹرین چلنے سے پہلے ہی بیٹھ گئی۔ اسی لئے کہتے ہیں دو ملائوں میں مرغی حرام، اب یہ بے چاری قسمت کی ماری کراچی سرکلر ٹرین بھی وفاقی اور صوبائی حکومت کے ٹسل کے درمیان لٹک گئی ہے۔ اب جو اس ٹریک کو کلیئر کرانے کے نام پر ہزاروں گھر اور دکانیںگرائی گئیں۔ ان کا کیا ہوگااسلئے بہتر ہے کہ ان غریبوں کے خون کو رائیگاں نہ جانے دیا جائے اور اب یہ ٹرام چلائی بھی جائے۔ ورنہ اراضی پر پھر نئے لوگ قبضہ کر لیں گے۔
٭…٭…٭
بھارتی الیکشن میں صرف 22 مسلمان امیدوار کامیاب
یہ سنہری مثال ہے باہمی نا اتفاقی کی۔ اگر یہ 22 کروڑ مسلمان متحد ہوتے تو آج انہیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ خود بی جے پی جو اکثریتی جماعت بن کر لوک سبھا کا الیکشن جیت چکی ہے اس نے جن 5 مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔ وہ بے چارے بھی ہندو توا کی تاب نہ لاتے ہوئے ہار گئے۔ بی جے پی کے انتہا پسند ہندوئوں نے ان مسلمان امیدواروں کو ووٹ نہیں دیئے۔ واحد مسلم اکثریتی ریاست مقبوضہ کشمیر میں البتہ تینوں نیشنل کانفرنس کے امیدواروں نے میدان مار لیا ہے وہاں بی جے پی یا کانگریس کی دال نہیں گلی۔ یہ جو 22 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر ان کو 22 کروڑ مسلمانوں کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ایک کروڑ مسلمانوں کا ایک ممبر بنتا ہے۔ اب بھی اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والی پالیسی ختم نہیں کی تو 22 تو کیا وہ 30 کروڑ بھی ہو جائیں‘ ان کی دال نہیں گلے گی۔ ہندو توا کا مقابلہ بھانت بھانت کی بولیاں بول کر نہیں یک زبان ایک آواز ہو کر ممکن ہے۔ ورنہ بی جے پی کا دیو استبدادا ان کو کسی قابل نہیں چھوڑے گا۔ مودی کی واپسی مسلم ووٹروں کے لئے کسی برے خواب سے کم نہیں۔ انہیں اب گائو رکھشا اور مسجد و مندر تنازعے کے نام پر مزید مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ مودی کی جیت تو اس وقت ہندو کی دیوالی مسلمان کا دیوالیہ نظر آ رہی ہے۔
وارم اپ میچ میں پاکستان کو افغانستان نے ہرا دیا
دعوے تو ہم کر رہے ہیں فائنل تک رسائی کے اور ابتدا ئی رپورٹ یہ سامنے آ ئی ہے۔ ابھی انگلینڈ سے سیریز بری طرح ہارنے کا صدمہ کم نہ ہوا تھا کہ افغانستان جیسے نو آموز ملک سے ورلڈ نمبر ون کلاس کی ٹیم کا یوں ہارنا …؎
حال کیا ہے دلوں کا نہ پوچھو صنم
’’تیرا ہارجانا‘‘ غضب ڈھا گیا
اس کے باوجود شکر ہے ہمارے کھلاڑی حوصلے نہیں ہارے۔ وہ اب بھی خود کو سپائیڈر مین، یا سپرمین سمجھتے ہوئے ورلڈکپ جیتنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ خدا کرے ہمارے لاڈلوں کی چاند سے کھیلنے والی یہ خواہش پوری ہو اور وہ پلاسٹک والی نہیں اصلی ورلڈکپ کی ٹرافی اٹھا کر وطن واپس لوٹیں۔ ہمارے کپتان سرفراز احمد کافی مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ دس پندرہ رنز سے ہار کوئی مسئلہ نہیں۔ تماشائی ہماری کارکردگی یعنی ’’آنیاں جانیاں‘‘ بھی تو دیکھیں جسے عمدہ کھیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے پھر چار روز بعد یہ جو سنسنی خیز قسم کے مقابلے شروع ہونے والے ہیں ہم اس میں اپنے شاہینوں کی اڑان بھی دیکھ لیں گے۔ بس کہیں ابتدا ہی میں یہ زیردام نہ آ جائیں۔ کیونکہ بھارت سری لنکا اور بنگلہ دیش والے جادو ٹونے کر کے ان کے پر باندھ سکتے ہیں۔ باقی رہا افغانستان تو وہ بھی تعویذ گنڈے کر کے ہماری ٹیم کونڈھال کر سکتا ہے۔ اسلئے ہمیں حفاظتی طور پر اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ آخر ہماری 80 فیصد آبادی انہی تو ہمات پریونہی تو یقین نہیں رکھتی انہیں اسکا توڑ بھی نکالنا چاہیے۔
٭…٭…٭
بریگزٹ میں ناکامی: برطانوی وزیراعظم نے روتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا
جمہوریت کی ماں برطانیہ میں عوامی رائے کے احترام میں اور ارکان پارلیمنٹ کو بریگزٹ پر قائل نہ کرنے پر برطانوی وزیراعظم جوہنستی ہوئی وزیراعظم بن کر پارلیمنٹ میں آئی تھیں روتے ہوئے رخصت ہو رہی ہیں۔ یہ دنیا کے میلے بھی عجیب ہیں کبھی روتے ہوئے آنے والے ہنستے ہوئے چلے جاتے ہیں اور کبھی ہنستے ہوئے آنے والے روتے ہوئے جاتے ہیں۔ یہ تو تھریسا مے جی کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے کرسی کی جان چھوڑ دی۔ ورنہ وزیراعظم کی کرسی تو بڑی سنگدل ہوتی ہے۔ یہ آسانی سے کسی کی جان نہیں چھوڑتی۔ ہمارے ہاں ہی دیکھ لیں۔ وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھنے والے یا تو اڑا دیئے گئے یا ہٹا دیئے گئے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت ابھی نوآموز یا نومولود ہے۔ جبکہ مغربی ممالک میں چونکہ یہ کافی عمر رسیدہ ہو چکی ہے اس لئے اس میں کافی سنجیدگی آ چکی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ انکی روایات بھی پختہ ہو چکی ہیں۔ اب تھریسامے جی کے آنسو بھی رائیگاں ہی جائیں گے۔ کیونکہ جن لوگوں نے پہلے ان کی نہیں سنی وہ بھلا اب کہاں سنیں گے۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں آنسو عورت کا سب سے خطرناک ہتھیار ہوتا ہے۔ کیا معلوم یہ برطانیہ میں بھی کام کر جائے۔ شاید تھریسامے جی نے اسی لئے آنسو بہائے ہوں کہ ارکان پارلیمنٹ کے دل پسیج جائیں۔