پڑھا لکھا پاکستان
مکرمی! اس وقت پاکستان میں تین قسم کے تعلیمی نظام ہیں اور یہ تین طبقاتی تعلیمی نظام ہمارے ملک کی کوئی خاص خدمت نہیں کر رہے بلکہ ہمارے ملک کی نوجوان نسل کے مستقبل کے ساتھ الجھائو پیدا کر رہے ہیں۔ پہلے نمبر پر وہ تعلیمی نظام ہے جس کو ہم اردو میڈیم کا نام دیتے ہیں اس میں زیادہ تر غریب، متوسط اور لوئر مڈل کلاس لوگوں کے بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں انکوزیادہ تر رٹا سسٹم کے تحت پڑھایا جاتا ہے۔ دوسرا تعلیمی نظام انگلیش میڈیم ہے جو سلیبس بیکن ہائوس، ایجوکیٹرز، کیتھڈرل جیسے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ ان میں صرف امرائ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں اور بڑے بڑے افسروں کی اولادیں ہی پڑھ سکتی ہیں ان اداروں میں اسلامی مضامین اور اردو کوزیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ تیسرا تعلیمی نظام مدرسے کی تعلیم کا ہے۔ جن میں اسلامی مضامین کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ انگلش ، کمپیوٹر، سائنس کے مضامین کو یکسر انداز کیا جاتا ہے۔ ہماریہاں کوئی بھی تعلیمی نظام مکمل نہیں جس کی وجہ سے یہ سائنسدان، ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتے۔ ہمارے ہاں کبھی میٹرک میں سائنس گروپ کے طلباء کو عربی یا فارسی یا جیومیٹریکل ڈرانگ پڑھنے کی سہولت ہوتی تھی، بیالوجی کو سائنس کے سب طلبہ کو لازمی قرار دینے سے یہ سہولت ختم ہو گئی اور ہم اپنے قیمتی ادبی اور روحانی سرمایہ سے محروم ہو گئے۔میٹرک تک یکساں نظام تعلیم کے ساتھ ہر طالب علم کی ایک ہنر (ٹیکنالوجی) میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہو، پھر اگلی کلاسوں میں طالب علم اپنے اپنے ذوق کیمطابق پیشہ ورانہ گروپوں میں آگے بڑھتے جائیں اور اپنے شعبہ میں ماہر بنتے جائیں۔ (پروفیسر سرور شفقت لاہور)