اردو بازار میں عرصہ دراز سے قائم مقبول اکیڈمی کے مالک ملک مقبول احمد 22 مئی کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ ملک مقبول احمد نے غربت بھری زندگی سے امارت بھری زندگی تک زبردست محنت کی اور پھر اس محنت کے نتیجے میں غربت سے نکل کر امارت کے دائرے میں داخل ہو گئے۔ ان کا تعلق جموں کشمیر کی سرحد سے چند فرلانگ ادھر پاکستانی تحصیل پسرور کے ایک شمالی گائوں دیووال سے تھا۔ اس گاوئوں کے شمالی جانب دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ہمالیہ کی برف پوش چوٹیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر کہیں سے سفید بگلوں کی قطاریں منظر عام میں نمودار ہوتیں اور چوٹیوں کے سامنے ریشمی سیاہ زلفوں کی طرح پھیلی ہوئی گھٹائیں ایک امید اور آگے بڑھنے والی زندگی سے بھر جاتیں۔ شاید یہی وہ مناظر تھے جس نے مقبول احمد کی معصوم آنکھوں کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے اور بڑھتے ہی چلے جانے کا خواب عطا کیا۔ ماں کے ہاتھوں پکے ہوئے چاولوں پر چینی اور دہی ڈال کر کھانے والے اس بچے کے بارے میں کسی کو خبر نہ تھی کہ یہ بچہ اپنی حویلی میں لگے ہوئے شیشم کے درخت کی طرح شاخ در شاخ پھیلنے والا ایک اشاعتی اداوہ مقبول اکیڈمی لاہور میں قائم کرے گا اور یہ ادارہ پاکستان بھر میں اتنا مقبول ہو گا کہ کتابی دنیا میں یہ بچہ ملک مقبول احمد کے نام سے جانا پہچانا جائے گا۔
1980 ء میں مجھے دو کتابیں موصول ہوئیں۔ ایک کتاب کا نام تمدنِ عرب اور دوسری کا نام تمدن ہند تھا۔ راقم الحروف نے دونوں کتب کے لئے مشرق میگزین کا پورا ایک ایک صفحہ ترتیب دے دیا۔ کتب کا تعارف شائع ہونے کے دوسرے روز مجھے ایک ٹیلی فون پر دل پذیر آواز نے مجھے شاباش دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کانوں میں رس گھولتی ہوئی یہ آواز ملک مقبول صاحب کی تھی۔ یہ ہماری شناسائی کی ابتداء تھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملک مقبول کے انتقال تک قائم و دائم رہی۔ اب آتے ہیں پہلی ملاقات کی طرف۔ مشرق اخبار میں ایک صحافی خالد محمود تھے جن سے میری دوستی تھی۔ خالد محمود نے 1965 ء کے پاک بھارت جنگ اور حضرت داتا گنج بخش پر تحقیقی کتب تحریر کی خبریں ملک مقبول احمد نے خوبصورت انداز میں شائع کیا۔ پھر خالد محمود نے گھروں میں لگنے والے پودوں پر ایک کتاب لکھی۔ جس کا نام ہم نے آنگنی پودے تجوزیر کیا۔ وہ کتاب کا مسودہ لے کر ملک مقبول احمد کے پاس گئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ ملک مقبول سے یہ میری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ پھر ان کی موت تک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اور پھر یہ سلسلہ گہری دوستی میں بدل گیا۔ یہ خاکسار تو اکثر اردوبازار جا کر ان سے ملتا رہتا تھا لیکن ملک مقبول کے مزاج میں دوستوں سے پیار کا انداز ایسا تھا کہ وہ ہر مہینے میں ایک دفعہ اس خاکسار کے گھر میں آ جایا کرتے تھے اور تقریباً ایک گھنٹہ تک بیٹھ کر خوشگوار گفتگو کیا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے راقم سے کہا کہ آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن مقبول اکیڈمی کو کبھی کوئی کتاب نہیں دی۔ میں نے ان سے وعدہ کر لیا اور پھر سہ مصرعی نظموں کی ایک منفرد کتاب ’’گوری خواب خیال‘‘ کا مسودہ ان کے حوالے کر دیا۔ پھر یوں ہوا کہ یہ کتاب انہوں نے شائع کی تو اس کا ہر صفحہ رنگین حاشیے سے مزّین تھا۔ملک مقبول ایک درویش صفت انسان تھے۔ جب انہوں نے لاہور کے اردو بازار میں مقبول اکیڈمی قائم کی تو اس سے قبل وہ لاہور کے دیگر اشاعتی اداروں میں تین جگہ نوکریاں کر چکے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ مقبول اکیڈمی کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اس وقت لاہور لگ بھگ دس جگہ مقبول اکیڈمی پھیلی ہوئی ہے۔ اور بے شمار کتابیں شائع کر چکی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا کہ ملک مقبول صاحب کو خود بھی کتابیں لکھنے کا شوق لگ گیا۔ ملک صاحب نے اپنی داستان حیات ’’سفر جاری ہے‘‘ کے عنوان سے لکھی جسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ملک صاحب کی دس سے زائد کتب شائع ہوئیں۔ ایک ملاقات میں ملک مقبول نے راقم اطروف سے پوچھا کہ آپ مختلف میدانوں میں ادبی اور سماجی کام کر رہے ہیں کیا آپ کی کارکردگی پر کچھ لوگوں نے مضامین لکھے ہیں تو میں نے جواب دیا کہ پچاس سے زائد بڑے نامور ادبیوں نے میری ادبی اور سماجی کارکردگی میں مضامین لکھے ہیں جو میرے پاس محفوظ پڑے ہیں۔ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ تو پڑے پڑے ضائع ہو جائیں گے۔ وہ تمام مضامین آپ مجھے دے دیں یا پھر خود ہی کمپوز کروا دیں۔ میں انہیں دھنک رنگ راجا کے عنوان سے مرتب کر دوں گا تو بطور مرتب اپنا نام لکھ دونگا۔ پھر یوں ہوا کہ تمام مضامین میں نے کمپوز کروا دیئے۔ لیکن جب یہ سودہ مجھے ملا تو اس کے دو دن بعد ملک مقبول احمد اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ ان کی نمازِ جنازہ میں بہت سے نامور ادیب اور شاعر اور دیگر لوگ شامل تھے۔ نماز جنازہ کے بعد ان کے چہرے سے کفن ہٹایا گیا اور شریکِ جنازہ دوستوں کو ملک مقبول کے آخری دیدار کی دعوت دی گئی۔ میں نے بھی چند منٹ رک کر ان کا آخری دیدار کیا۔ جب میں جنازِگاہ سے باہر آیا۔ تو قلم فائونڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم نے مجھے روک لیا اور ملک مقبول احمد کی نئی کتاب ’’150 مشاہیر ادب‘‘ میرے حوالے کر دی۔ میں نے یہ کتاب دیکھی تو اس میں اس خاکسار پر بھی ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ یہ کتاب دیکھ کر مجھے ان کا وہ چہرہ یاد آ گیا جس کا دیدار میں ابھی کر کے آیا تھا۔ تو میرے ذہن میں یہ شعر رقص کرنے لگا ۔
اپنے یاروں رشتہ داروں سے ہر رشتہ توڑ کر
چلے مقبول ملک اب اس دنیا کو چھوڑ کر
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024