میں نے کچھ خواب ہی سجائے تھے
تقریبا چار ہزار سال قبل گوتم بدھ نے چار سچائیاں بیان کی تھیں جن میں سے پہلی سچائی یہ تھی کہ زندگی دکھ ہے۔ مشہور تحقیق دان اسکاٹ بیگا اسے عظیم ترین سچائی کہتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ زندگی دکھ سے عبارت ہے لیکن لاکھ دکھ ہوں آخر مرنا کون چاہتا ہے۔ لاکھ مصیبتیں ہوں زندگی سب کو عزیز ہے ایک چھوٹا سا کیڑا بھی اپنی جان بچانے کیلئے ہاتھ پیر مارتا ہے۔ ہم تو پھر انسان ہیں، خالق کائنات نے حیوانات، جمادات، نباتات، حضرت انسان کو خوش رکھنے اور زندگی میں کشش پیدا کرنے کیلئے تخلیق فرما دیئے، پھر یہی نہیں اس کے ارد گرد محبت بھرے رشتے قائم کردیئے۔ دوست عزیز رشتے دار، ماں باپ، بہن بھائی، میاں بیوی سب کو ایک دھاگے سے باندھ دیا اور یہ دھاگہ دراصل محبت کا دھاگہ ہے۔ ساتھ بے شمار نعمتوں سے نوازا، اتنی نعمتیں عطا کیں جن کا شمار ہمارے بس کی بات ہی نہیں۔ اپنی لامحدود اور ان گنت نعمتوں میں سے ایک آنکھیں دیں، خالی آنکھیں ہی نہ دیں۔ ان میں رنگ رنگ کے خواب سجا دیئے۔ ہر عمر کے سہانے خواب جو زندگی کا حوصلہ دیتے ہیں۔ جینے کی امنگ پیدا کرتے ہیں بہت درد ہوا تھا جب زینب کیس واقع ہوا۔ ہر دردمند دل رکھنے والے کا دل تڑپا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار ہوئی تھی لیکن قارئین یہ فقط ایک واقع نہیں تھا نہ جانے کتنی ننھی پریوں کی معصوم آنکھوں سے ایسے خوش رنگ خوابوں کی دھنک چھین لی جاتی ہے۔ روز نجانے ایسے کتنے ہی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ایسی ایسی آنکھیں جنہوں نے تو ابھی تک دنیا کو ٹھیک طرح سے دیکھنا بھی نہیں سیکھا ہوتا۔ آنکھ کے کورے کاغذ پر خوابوں کے رنگ بھرنے کے موسم تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئے ہوتے کہ ان آنکھوں کو ہمیشہ کیلئے موت کی سیاہی سے بھر دیا جاتا ہے یہ تو ہمارے اپنوں کی داستان ہے جو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا کر اپنی معصوم بیٹیوں جیسی پریوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ دوسری موت ہماری عزتوں کی غیروں کے ہاتھوں بھی رونما ہو رہی ہے۔ عافیہ صدیقی کیس سالوں سے زیر بحث ہے جو نہ زندوں میں شمار ہے نہ مردوں میں لیکن جو زندگی وہ گزار رہی ہے کیا واقعی اسے زندگی کہا جا سکتا ہے؟ اس کا قتل تو اسی روز واقعی ہو چکا تھا جب ہمارے بے بس حکمرانوں نے اسے غیر وں کے ہاتھوں مرنے کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے لئے کوئی طیارہ روانہ نہیں کیا گیا جو اسے صحیح سلامت وطن واپس لے کر آتا اور امریکہ بہادر کے منہ پر طمانچہ رسید کرکے آتا کہ دیکھ یہ ہے تمہاری اوقات، لیکن عافیہ صدیقی کرنل جوزف نہیں ہے کہ اسے سات خون بھی معاف ہوں اور اسے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ شاباشی دیتے ہوئے بخیر وعافیت سرعام نکال کر لے جایا جائے۔کچھ دن قبل ایک اور آنکھ خواب دیکھنے والی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگئیں۔ سبیکا شیخ جو کراچی سے تعلق رکھتی تھیں اور اپنے روشن خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے ٹیکساس میں جا پہنچی نجانے کیسی کیسی حسین امنگیں اس کے ننھے سے دل میں چھپی ہوئی تھیں یہ ہونہار طالبہ اپنی کامیابیوں پر کس قدر خوش وخرم دکھائی دیتی تھی19روز کے بعد والدہ سے آملنے کا وعدہ کرنے والی اپنے خواب کی بس آخری سیڑھی پر قدم رکھ ہی چکی تھی وطن عزیز کیلئے رخت سفر باندھنے کی تیار ہی کر رہی تھی کہ ایک ظالم سکول فیلو کو گولی کا نشانہ بن گئی بس سارے خوابوں کی یکدم موت واقع ہوگئی میں نے پچھلے ایک کالم میں گداگری پر لکھا تھا۔ یہاں بھی کئی ننھی معصوم کلیاں خواب سے عاری آنکھیں لئے سڑکوں اورگلیوں کی خاک چھانتی نظر آتی ہیں ان کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں روٹی کا سوال لکھا ہوا نظر آتا ہے اور آنکھ میں بھی بھوک کی چمک دکھائی دے گی۔ مجھے وہ بیٹیاں بھی یاد آجاتی ہیں جو کاروکاری کا نشانہ بنتی ہیں جو نہ گنہگار ہوتی ہیں اور نہ ہی شریک گناہ۔ کسی اور کے جرم کی سولی چڑھنے والی خواب کے لفظ تک سے ناآشنا ہوتی ہیں۔ میں نے اپنے علاقے کے اردگرد ایسے چھوٹے چھوٹے دیہات بھی دیکھے ہیں جہاں وٹہ سٹہ شادی سسٹم کے تحت نہایت کم عمری میں لڑکیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ ایسی کچی عمریں جن میں وہ ابھی خود گڑیا گڈے کی شادی رچا رہی ہوتی ہیں۔ گھرداری کے بھاری بوجھ کو ان کے ناتواں کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ خدایا یہاں پر بھی ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں آنکھ کے نگینے میں بکھری نظر آتی ہیں۔ چائلڈ میرج کے حوالے سے سخت ترین نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ اسلامی اور عائلی دونوں قوانین میں اس چیز کی سختی سے ممانعت ہے لیکن نجانے اس طرف ہمارے قانون نے اپنی آنکھیں کیوںبند کر رکھی ہیں چیف جسٹس ذرا اک نظر اس طرف بھی کیجئے بہت سی خواہشوں کی تکمیل نہیں ہو پاتی اور ایسا ہو یہ ضروری بھی نہیں ہے بہت سے خواب بھی پورے ہوجائیں یہ بھی ناممکن ہے۔ ہمیں اپنی خواہشات اور خوابوں کا دائرہ کار اتنا وسیع بھی نہیں کرنا چاہئے کہ ان کے پورے ہونے کا امکان ہی غیر حقیقی لگنے لگے۔ اللہ رحیم ہے نوازتا ہے ہمیں ہماری ضرورتوں کے مطابق ضرور عطا کرتا ہے۔ ہماری جائز دعائیں سنتا بھی ہے اور پوری بھی کرتا ہے ایک دائرہ کار کے اندر رہ کر خواب دیکھنے کی اجازت اس رب کریم نے سب کو عطا کر رکھی ہے ہمارے دست طلب دراز ہوتے ہیں تو اس کی رحمت جوش میں آجاتی ہے لیکن خدارا۔ان معصوم جانوں کے خود اپنے ہاتھوں سے خواب مت نوچئے جنہوں نے ابھی زندگی کے باقی قوس وقزح رنگ دیکھے بھی نہیں۔ یا جن میں بھوک کی طاقت خواب کی طاقت پر غالب آجائے۔ یہ خواب نہ دشمنی کی بھینٹ چڑھنے چاہئیں نہ انتقام اور دوسروں کے گناہ کی۔ اللہ پاک آپ سب کے خوابوں کو سلامت رکھنے۔
میں نے چند خواب ہی سجائے تھے
تم نے آنکھیں ہی نوچ لیں میری