آزار محبت کا مداوا ہی کہاں ہے
فرخندہ رضوی خندہ لندن میں مقیم پاکستانی نژاد کالم نگار،محقق ، ادیبہ، ناول نگار اور شاعرہ ہیں۔کثیر الجہات شخصیت ہیں۔حسن ظاہر و باطن سے مالا مال ہیں۔ خلاف نظام استحصال ہیں۔ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے سیالکوٹ کی مردم خیز زمین سے متعلق ہیں۔ شاعروں نے محبت کے پیغام کو عام کیا جبکہ اہل ہوس نے محبت کو بدنام کیا اور سرعام کیا۔بقول غالب
ہر بوا لہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ¿ اہل نظر گئی
انسانیت، مساوات، محبت، عدل اور امن کی تبلیغ و ترویج قسمت و کار شاعراں ہے۔شاعروں نے ہمیشہ لسانی ،گروہی ، مذہبی اور علاقائی تنازعات و مناقشات سے صرف نظر کیا۔محبت کو زندگی اور زندگی کو محبت جانا۔ انسانیت کو مذہب گردانا۔ محبت کے گیت گائے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر شاعرنہ ہوتے تو محبت نہ ہوتی۔بقول حافظ شیرازی
خلل پذیر بود ہر بناکہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی ازخلل است
کتنی ستم ظریفی کی بات ہے ہرطرف خوف و ہراس اور نفرت و کدورت کی سیاہ رات ہے۔محبت پر پابندیاں ہیں اور نفرت آزاد ہے۔میری رائے میں نفرت جتنی کم ہواتنی ہی زیادہ ہے اور محبت جتنی زیادہ ہو اتنی ہی کم ہے۔غیرت کے نام پر قتل آج بھی ہورہے ہیں۔مشرق کی سرزمین آج بھی اہل دل پرتنگ اور باعث ننگ ہے جبکہ اہل زور و زر دریائے عیش و عشرت میں غوطہ زن ہیں۔ایسے ماحول میں فرخندہ رضوی پکار اٹھتی ہیں
الزام مسیحا پہ لگاتی بھی میں کیسے
آزار محبت کا مداوا ہی کہاں ہے
آزار محبت آلام محبت کو جنم دیتا ہے۔ انسان کش ماحول میں جذبات و احساسات کچل دیئے جاتے ہیں۔انگریز شاعر جان کیٹس اپنی محبوبہ فینی براو¿ن کے ہجر میں عالم شباب ہی میں نذر مرگ ہوا۔ غم ہجراں دراصل غم انسان ہے۔انسان کا مصدر ہی انس ہے اور انس کا مطلب محبت ہے۔گویا انسان صاحب محبت کو کہتے ہیں اور جو صاحب محبت نہیں وہ انسان نہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرخندہ رضوی خندہ نے محبت کو آزار محبت کیوں کہا۔جواب واضح ہے۔خود غرضی،بے حسی،بے مروت اور حرص و ہوا کے معاشروں میں محبت آزار جاں ہی ہوتی ہے۔چارہ گروں کی چارہ گری ناکام اور مسیحاو¿ں کی مسیحائی بے سود کیونکہ آزاد محبت کا درماں فقط وصال ہے درمان درد محبت ناپید ہے۔ ہجر کی بیماری کی دوا صرف اور صرف وصل دوست ہے۔بقول امیر خسرو
از سر بالین من برخیزاےناداں طبیب
درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست
فرخندہ رضوی خندہ گو خندہ برلب ہیں مگر خستہ بہ دل ہیں۔ان کے تین شعری مجموعے ”زیر لب خندہ،سنو خموشی کی داستان اور فاصلے ستارے ہیں“ منصہ شہود پر آچکے ہے جو ان کی سیاسی ،سماجی اور ادبی بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی شاعری میں درد ہجراں،غم دوراں اور فکر انسان ہے۔زیر نظر مجموعہ کلام ان کی تازہ غزلیات اور منظومات پر مبنی ہے۔غزلیات میں سلاست و بلاغت ہے۔احساس کی شدت اور شعور کی جدت ہویدا ہے۔نظم“خالی ہاتھ“میں وہ دلدار سے فقط ایک”پھول“کے تحفے کی خواشگار ہیں۔عصر جدید کی جدید محبوبائیں اور بیویاں”پھول“نہیں بلکہ زرومال کی طلب گار ہیں جبکہ نیک دل و نیک خصلت شاعرہ اس پرخار زندگی میں ایک تازہ و خوشبودار پھول کی خواہاں ہے۔پھول یہاں وفاداری اور قناعت کا ابدی استعارہ ہے جو خندہ کا ادبی استعارہ ہے۔نظم سانحہ پشاور میں وہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے طلبہ و طالبات پر ماتم کناں ہے “وہ شخص خزاں کے موسم میں“درد ہجراں کی دستان ہے اور نظم ”آج کی عورت“حقوق نسواں کی ترجماں ہے۔”زخم بے حسی“میں حکمران کی بے حسی اور عوام کی بے بسی کو بیان کیا گیا ہے۔”سال نو“بھی ”سال گزشتہ“کی طرح ”سال اداسی“ہی ثابت ہوگا کیونکہ ”یا دماضی غذاب ہے یارب“والا معاملہ ہے۔فرخندہ کی غزلیات میں گہرئی و گیرائی ہے۔روایت وجدت کا اتصال ہے۔زبان روایتی اور افکار یاضیانہ وجدید۔ایک غزل کے دواشعار ملاحظہ کیجئے۔پہلا شعر رومانوی اور دوسرا انقلابی
ہر ایک بوند ہمیں آبشار لگتی ہے
ہماری تشنگی بے اختےار لگتی ہے
قطار بجھنے کو ہے شب زدہ چراغوں کی
نوید صبح بڑی خوشگوار لگتی ہے فرخندہ کی غزلیات میں تازگی،برجتسگی اور شائستگی و شگفتی کے ساتھ ساتھ نیا اسلوب رنگ تغزل نمایاں ہے۔روایتی داستان ہجر و وصال سے جدا وہ پرعزم اور رجائیت پرست اور انفرادیت کی علم بردار ہیں۔خودی و خوداری و خود آگہی عطیہ پروردگار ہے۔دوشعر سنیے اور سردھنیے
طوفان نوح سے تو میں خائف نہیں مگر
غرقاب ہوکے خود میں ابھرتی نہیں ہوں میں
پیاسی ندی ہوں میر اٹھکانہ ہے ریگزار
اب ان سمندروں میں اترتی نہیں ہوں میں
نظم و نثر میں اندرون ملک اور بیرون ملک شاعر،ادیب ،دانشور،اور کالم نگار محبت و مروت،عدل و انصاف اور امن و انسانیت کی ترویج تبلیغ میں اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں انہی میں عطاالرحمان چودھری بھی ہیں۔ماہر اقبالیات میں ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ستاروں میں چاند ہے۔حال ہی میں انہوں نے چند کتب بطور تحفہ بھیجیں جن میں”چند ہم عصر اقبال شناس“اقبالیات کے طلبہ کے لئے تحفہ عظیم ہے۔وہ اس وقت اردو ادب کے حوالے سے 82 کتب کے مصنف ہیں جو ان کی علمی و ادبی خدمات کی دلیل ہے۔عطاالرحمان چودھری صاحب ایک معلم ہیں تعلیم کے پیشہ سے منسلک ہیں واہ کینٹ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔میں انہیں معلم اخلاقیات کہتا ہوں کیونکہ وہ نصابی تعلیم کے علاوہ نسل نوکو اپنی تحریر و تقریر سے ایک اچھا مسلمان اور انسان بنانے کے عظیم مقصد میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔حدیث رسول ہے ”مجھے اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا“۔گویا ایسا استاد جو نوجوانوں کو درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اخلاق عالیہ کی تبلیغ و ترویج میں مصروف ہو وہ سنت رسول کا پیروکار ہے۔استاد کے احترام کا اسلامی نظریہ اخلاقیات میں بڑا مقام ہے۔ممتاز ادیب و دانشور اشفاق احمد جن کی تصنیف”زاویہ“قبول عام کا درجہ حاصل کر چکی ہے لکھتے ہیں کہ انہیں اٹلی میں قیام کے دوران ایک مرتبہ عدالت میں کارڈرائیونگ چالان کے لئے پیش ہونا پڑا تو انہوں نے جج کے استفسار پر بتایا کہ وہ استاد ہیں تو یہ سنتے ہی جج صاحب اور عدالت میں موجود سب لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔عطاالرحمان چودھری واہ کینٹ میں رہ کر بھی صاحب مقام و احترام ہیں۔ عطا الرحمان چودھری صاحب نظریہ استاد ہیں۔وہ اسلام،علامہ اقبال اور نظریہ پاکستان سے وابستہ ہیں۔”اندر کی باتیں“کے عنوان سے کالم نویسی بھی کرتے ہیں۔ان کے کالموں میں علم و ادب کے علاوہ سماجی مسائل اور اخلاقی امور پر سبق آموز باتیں ہوتی ہیں۔باوقار،ملنسار اور صاحب کردار شخصیت ہیں۔واہ کینٹ ،ٹیکسلا اور راولپنڈی کی علمی وادبی محافل میں ایسے تابناک ہیں جیسے ستاروں کے جھرمٹ میں ماہ چہار دہم،نیک دل و نیک طینیت ہیں۔زبان و بیان پر دسترس ہے۔ان کے کالموں کا مجموعہ بعنوان”اندر کی باتیں“منصہ شہود پر آرہا ہے جو بالیقیں اہل دانش و بینش کے لئے سرمایہ راحت اور خزینہ حکمت ثابت ہوگا۔