سیاسی فضا میں دھماچوکڑی کی سی کیفیت؟
ووٹ کو عزت دو، نواز شریف کے بیانیہ پر لیگی ارکان کے تحفظات، نواز شریف کے بیانیے میں نرمی کی کوشش کریں گے، پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں لیگی اور پی ٹی آئی ارکان گتھم گتھا، بہت سے راز ہیں ملک کے لئے خاموش ہوں، رمضان آتے ہی گراں فروشی کا بازار گرم، برائلر کا گوشت 293 روپے کلو، آلو، پیاز مہنگے ہو گئے۔ ماہ رمضان میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری، کوئٹہ کے قریب دہشتگردوں سے جھڑپ میں عساکر پاکستان کے کرنل سہیل عابد شہید ہو گئے۔اصغر خان کیس، ایف آئی اے نے 5 رکنی نئی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے نواز شریف کے بیان کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا، وزیراعلی پنجاب، میاں صاحب نے جو کہا ملک کے بہترین مفاد میں کہا، مریم نواز، نواز شریف کا بیان غلط گمراہ کن اور قابل مذمت ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی، سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مسترد، گھر ٹھیک کرنے کی بات کو نیوز لیکس بنا دیا گیا۔ نواز شریف بلاشبہ ایسی بیشتر خبروں سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر بلامبالغہ اس حققت کا اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ گزشتہ چند دنوں سے متذکرہ قسم کی خبریں ہی ذرائع ابلاغ میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت اور موضوع سخن ہیں۔ حقائق اسی طرح ہوں تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ جس معاشرے میں صورت حال اس طرح کی ہو وہاں کی سیاسی فضا میں مچی دھماچوکڑی کی صورت ناقابل فہم ہو گی۔ یہی حالات و واقعات ارض وطن کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کے بسنے والے عوام کے ہیں۔ کم و بیش بیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی والے ملک پاکستان میں صرف اور صرف چند ہزار خاندانوں ہی کے بارے میں وہ خبریں ہیں جو پورے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہیں۔ متذکرہ خبریں بھی ہر لحاظ سے انہی خاندانوں سے متعلق ہیں۔ انہی کے لئے باعث تشویش اور قابل غور ہیں۔ چند ایک خبریں بھی ہیں جن کا تعلق براہ راست ملک کے لاکھوں خاندانوں سے عبارت کروڑوں عوام سے ہے۔ ان کروڑوں عوام میں خیبر سے کیماڑی اور بولان تک بسنے والا ہر وہ عام آدمی اس کا گھرانہ اور اس سمیت وہ کروڑوں عوام شامل ہیں جو اپنے وطن میں بے گھر ہیں۔ جنہیں رہنے کے لئے چھت بھی مہیا نہیں جو جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے کے لئے دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں ان کے معمر والدین، کمسن بچے، بچیاں اور جوان اپنے وطن میں طبی سہولتوں سے محروم ہیں جنہیں ملک کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں ان کی کسی بھی بیماری کا شافی علاج میسر نہیں نہ انہیں بیماری کی ادویات نصیب ہیں۔ ستم کی بات یہ ہے کہ ان لاغر بیمار اور غربت کے مارے کروڑوں افراد کے ووٹوں سے ایوان اقتدار پر قابض ہو جانے والے مستعار لئے ہوئے لفظوں سے بیرونی دنیا کو دھوکہ دینے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں شاہراہ حیات پر سسکتے ہوئے عوام کے ٹیکسوں سے گلچھرے اڑانے والے حکمرانوں کی زبان سے اکثر اس قسم کا جھوٹ سننے میں آ رہا ہے کہ وہ سٹیٹ آف دی آرٹ قسم کے ہسپتالوں یا ہسپتال کا قیام کر رہے ہیں مگر حقیقت میں یہ سب جھوٹ اور ایسی بے بنیاد باتیں ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ درحقیقت یہ لوگ سٹیٹ آف دی آرٹ نام کی اصطلاح کے مفہوم ہی سے ناآشنا ہیں یہی حکمران بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ملک میں تعلیم عام کرنے کی کوششوں کا ذکر کرتے تھکتے نہیں حالانکہ یہ بچوں کے سینکڑوں نہیں ہزاروں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے عہد حکومت میں تعلیم کو تجارت کی شکل ملی ہے۔ اس نام سے معاشرے میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ لاتعداد افراد نے اپنی جائز ناجائز کمائی کو تعلیم کے کاروبار میں جھونک دیا ہے۔ نجی سکول برسات کی کھمبیوں کی طرح کھولے جا رہے ہیں اور پنپ رہے ہیں کیونکہ ان سکولوں میں تعلیم کے تاجر من مانی فیسیں والدین سے وصول کرتے ہیں۔ حکومت اور حکمران اس لئے اس سے آنکھیں چراتے ہیں کہ ان کے پاس کروڑوں عوام کے بچوں کی تعلیم کے لئے کوئی پروگرام نہیں، نہ وہ کسی ایسے منصوبے پر غور کرنے کے خواہاں ہیں کہ جس کے نتیجے میں آج کے کروڑوں عوام کے نونہال زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر پاکستان کے بہتر مستقبل کی ضمانت بنیں۔
ستم باعث ستم بات یہ ہے کہ طبی اور تعلیمی لحاظ سے تباہ حال اور ہر قسم کی سہولتوں سے محروم کروڑوں عوام کو حکمرانوں کی دانستہ طور پر ایسی معاشی پالیسیوں نے غربت و عبرت کی ان اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رکھا ہے جہاں مفلسی و بے بسی کی زندگی نے ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر رکھی ہیں۔ ضروریات زندگی کی کوئی ایک چیز بھی تو ایسی نہیں جو ملک کے ان کروڑوں فاقہ مست عوام کو میسر ہو۔ بیماری، مفلسی اور بےروزگاری نے ان کے گھروں میں صرف اور صرف اس لئے ڈیرے جما رکھے ہیں کہ حکمرانوں نے ان کے ایسے تمام شعبوں کو سنوارنے کے لئے ان کے ٹیکسوں ہی سے جمع شدہ کثیر سرمائے کو اپنی شان و شوکت کے نمود کے منصوبوں پر صرف کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور یہ باتیں اسی لئے زبان زدعام ہیں کہ حکمرانوں کے ذاتی نام و نمود اور کروفر کے گراں بہا منصوبوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ حصہ رسدی کو الگ کرنا ہے ورنہ ایسے سراسر غیر ضروری اور عوام کے منہ سے نوالے چھیننے یا انہیں طبی سہولتوں سے محروم رکھنے والے منصوبوں سے ملکی عوام کے دکھوں پر آنکھیں بند کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔
ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ ملک کے سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے کا موجب بننے والی ان خبروں کی وجہ سے جن کا آغاز زیر نظر کالم میں کیا گیا، گنتی کی وجہ نہیں خبروں کے سوا باقی تمام کا تعلق ملک کے ان چند ہزار خاندانوں سے ہے جو براہ راست ان خبروں کا عنوان ہیں۔ رہی بات مفلوک الحال اور زندگی بھر کی تمام آسائشیوں سے محروم کروڑوں عوام کی تو ان کی قسمت میں بدستور برقی رو کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا ہے۔ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اب لوڈشیڈنگ کو لوڈ مینجمنٹ برائے رمضان المبارک 2018ءکا نام دے کر اس کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ اسی حوالے سے پنجاب بھر میں کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔ یہ لوڈشیڈنگ بھی درحقیقت ان کروڑوں محروم انسانوں کے خاندانوں کے لئے ہے جو ہزاروں روپے سے جنریٹر خریدنے کی استطاعت سے محروم کر دیئے گئے ہیں کیونکہ حکومتی معاشی اور اقتصادی پالیسی نے ان مفلسوں کو اس حد تک قلاش کر رکھا ہے کہ وہ اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے اپنی جمع پونجی تک لٹا چکے ہیں۔ حقائق اس طرح ہوں تو حکمرانوں اور ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرنے والوں کو لوڈشیڈنگ سے متاثر کروڑوں عوام کی اذیت ناک صورت حال کا اندازہ کیسے ہو سکتا ہے جن کے بچے لوڈشیڈنگ میں شدید گرمی سے بے حال ہو جاتے ہیں اور ان کے بچے پڑھنے لکھنے سے محروم رہتے ہیں۔
حکمرانوں اور ان کے حواریوں میں ملکی اور قومی وسائل کی بندربانٹ نے غریب عوام کی اقتصادی مشکلات کا احساس مٹا رکھا ہے، آٹا دال کا بھاﺅ معلوم رکھنا ان کے لئے بے معنی ہو چکا ہے جبکہ قلاش عوام کے لئے ان اشیاءکی گرانی نے ان کے ہوش اڑا رکھے ہیں۔ سیاسی فضا میں پیدا کردہ چند ہزار خاندانوں نے مخصوص مفادات کے تحت جو دھماجوکڑی کی فضا قائم کر رکھی ہے اس حوالے سے لاتعداد خبریں ملک کے عوام کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں، جن دو چار خبروں سے اپنے مسائل کے بھنور میں حواس باختہ عوام ملکی سلامتی کیلئے خدا سے دست بدعا ہوئے ہیں، ان کے لئے اس قسم کی خبریں نوید صبح ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں عوام کے لئے دلچسپی کی خبروں میں یہ خبر جہاں روح فرسا تھی وہاں دلوں کو گرما دینے والی بھی تھی کہ کوئٹہ کے قریب دہشت گردوں سے جھڑپ میں عساکر پاکستان کے کرنل سہیل عابد سمیت ایک اور بہادر جانباز بھی جام شہادت نوش کر گئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ اس نوعیت کی خبروں میں سے ایک تھی جو محب وطن اپنی فاقہ مستیوں کا غم فراموش کر کے اپنے ان جانبازوں اور سرفروشوں کے غم میں ڈوب جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں جو انہی کروڑوں غربت کے مارے عوام کی ترقی و خوشحالی اور جان، مال، سمیت ارض وطن کی سلامتی کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں۔ ملک میں اقتصادی بدحالی کی بدترین زندگی گزارنے والے کروڑوں عوام کے دل اگر قومی زندگی کے جس ادارے کے ساتھ دھڑکتے ہیں تو وہ ملک و قوم کی خاطر ہر دن اور ہر لمحے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے محافظین وطن کا ادارہ ہے۔ سیاست دانوں نے اپنے اپنے عہد اقتدار میں انسانوں کی بے حرمتی اور عزت نفس کی پامالی کے بعد ووٹ کو عزت دو کا نام نہاد نعرہ ایجاد کیا، ان نام نہاد سیاستدانوں کے ہاتھ انسان کی عزت نفس کی پامالی سے کربناک اذیتوں سے دوچار عوام کے نزدیک ”ووٹ کو عزت دو“ کے بے معنی نعرہ کی بجائے انسان کو عزت دذو اور انسان کو برابری کے حقوق دو کا نظریہ اپنا چکے ہیں۔