ریاست ہوگی ماں کے جیسی
اس سٹرک پر دو سرکاری ہسپتال ہیں۔ یہ سٹرک "سیدو روڈ" کہلاتی ہے۔ اس شہر کو فردوس برزمین بھی کہا جاتا ہے۔یہ سوات ہے۔ یہاں "نفاذ شریعت"کے نام پر جو کچھ ہوا، اس کا ذکر بہت ہوچکا۔ ابھی ہمارا موضوع اس وادی کے پہاڑوں، دریاﺅں، وادیوں، تعلیمی اداروں، عجائب گھروں سبزے کی لہک اور پھولوں کی مہک بھی نہیں۔ ذکر ہو رہاتھا یہاں موجود دو بڑے سرکاری ہسپتالوں کا۔ نشاط چوک سے اگر آپ والی سوات کے محل سید وشریف تک جائیں تو یہی سڑک "سیدوروڈ" کہلاتی ہے۔چوک سے نکلتے ہی تھوڑا آگے جو اہم عمارتیں آتی ہیں ان میں سرکٹ ہاﺅس، ڈسٹرکٹ کورٹس، اس کے سامنے ایک طرف شہر کا سب سے بڑا کھیلوں کامیدان "گراسی گراﺅنڈ" دوسری طرف اس کے مقابل "بت کڑہ" جسے اب گل کدہ بھی کہاجاتا ہے نظر آتا ہے جو بدھا کے زمانے کے عجائبات سے بھراپڑا ہے اور شہر کا باقاعدہ عجائب گھر ہے۔اس سے ذرا آگے چند سو گز کے فاصلے پر سنٹرل ہسپتال ہے جہاں سے روزانہ سینکڑوں مریض فیض یاب ہوتے ہیں۔ اب تو اس میں غالباً متحدہ عرب امارات کی جانب سے کئی ایک جدید بلاک بھی بن چکے ہیں۔ سنٹرل ہسپتال سے سیدو روڈ پر جاتے ہوئے فائیو سٹار ہوٹل "سوات سیرینا" ہے۔ ساتھ ہی کمشنر ہاﺅس مالاکنڈ ڈویژن واقع ہے جس کے عین مقابل شہر کا دوسرا بڑا سرکاری "سیدو ہسپتال" ہے جہاں اب میڈیکل کالج بھی بن رہا ہے یا بن چکا ہے۔ نرسنگ سکول اور محکمہ صحت سے متعلقہ دیگر ادارے بھی موجودہیں جو گذشتہ دہائی میں نہیں تھے۔ سیدو روڈ پر میڈیکل سٹورز، فارمیسیاں، لیبارٹریاں، پرائیویٹ ہسپتال اور ڈاکٹر حضرات کے کلینک بھی شہر کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ ابھی تک آپ نے جو کچھ پڑھا اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی جو "کالم" کہلانے کی مستحق ہو۔ اب جو بات میں آپ کو بتانے جارہا ہوں یہ یقیناً آپ کیلئے انتہائی حیرت کا باعث ہوگی۔ والی سوات کے زمانے میں جو یحییٰ خاں کے ابتدائی دورتک رہاوادی میں کوئی میڈیکل سٹور نہیں تھا اور نہ ہی اس کاروبار کی اجازت تھی جہاں جہاں والی سوات کی حکمرانی تھی کوئی شخص دوائیوں کی دکان نہیں کھول سکتا تھا۔ شائد یہ قانون "بادشاہ صاحب" کے زمانے میں بھی ہو۔ اس کی وجہ والی صاحب کا قانون پر عمل درآمد اور ریاست کا "ماں" جیسا سلوک تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہر قسم کی دوائیاں دونوں ہسپتالوں میں میسر ہیں تو میڈیکل سٹور کوئی کیوں کھولے حالانکہ والی صاحب کو اپنی رعایا پر مکمل یقین تھا اس کے باوجود انہیں اس امر کا بھی یقین تھا کہ اگر کسی نے ہسپتال کے علاوہ دوائیاں فروخت کرنے کا کاروبار کیا تو خدشہ ہے کہ ہسپتال کی ادویات وہاں بکنا شروع ہو جائیں گی۔ ایک روایت کے مطابق سوات میں تو ایک ہی تو قانون تھا، والی صاحب کا کہنا.... اور لوگوں کا ماننا مگر یہ سب کچھ جبرسے نہیں، باہمی محبت وعقیدت کی بنا پر تھا۔ آج بھی آپ اگر سوات جائیں تو آپ کو ایک ایک آدمی کے دل میں کہیں نہ کہیں سوات کے سابق والیان کی محبت اور عقیدت چھپی ہوئی ضرور ملے گی۔ یحییٰ خاں نے دیر اور چترال کے ساتھ ساتھ سوات کی ریاست کا درجہ بھی ختم کر دیا۔ ریاست ختم ہو گئی والیان ریاست کی جگہ کمشنروں اور پولیس آفسران نے لے لی تو سرکاری دفاتربھی کھل گئے اور میڈیکل سٹور بھی۔ اب اپنی تمام رعنائیوں، خوشبوﺅں صدیوں سے خاموش کھڑے ہوئے پہاڑ اور محبت کرنے والے لوگوں کے باوجود ادویات کا کاروبار ملک کے دیگر صوبوں کی طرح ہی چل رہا ہے یعنی ہسپتالوں سے ادویات چوری بھی ہوتی ہیں اور جعلی دوائیاں بھی بنتی ہیں غرضیکہ اس کاروبار سے وابستہ جملہ اقسام کی برائیاں رونما ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود پورے صوبے کیلئے ایک ہی ڈرگ کورٹ ہے۔ ایک گولی کی بجائے پوری پیکنگ خریدنے اور بیچنے کا چلن عام ہے مگر پنجاب میں تو ایسی لوٹ مچی کہ عقل پریشان ہوجاتی ہے۔ ایک ہی میڈیکل ٹیسٹ کی فیس اگر دس ہزار ہے تو وہی ٹسٹ کسی اور لیبارٹری میں ایک ہزار روپے میں بھی ہوجاتا ہے۔ آپ نے یہ تو سنا ہی ہوگا کہ ڈاکٹر حضرات لیبارٹریوں سے کمشن لینے کیلئے مریض کو وہیں سے ٹسٹ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں مگر اب یہ طریقہ فرسودہ ہو چکا ہے۔ چوربازاری کایہ دھندہ اب "ایمانداری" سے ہوتا ہے ڈاکٹر اب کسی لیبارٹری کا نام نہیں لیتے۔ لیبارٹری والے خود ہی نسخے پر دیکھ لیتے ہیں کہ مریض کو کس ڈاکٹر نے بھیجا ہے۔ ان کا نمائندہ رات کو ڈاکٹر سے "کل میزان" خود ہی ملا کر رقم ادا کر دیتا ہے۔ ادویات ساز کمپنیوں کے نمائندوں کا دھندہ بھی جدید شکل اختیار کرچکا ہے۔ شہر کے معروف ڈاکٹر حضرات جو سرکاری ہسپتالوں کے اردگرد ہی نجی ہسپتال یا مذبحہ خانے بنائے بیٹھے ہیں وہاں ان کمپنیوں کے نمائندے (Medical Rap) اکٹھے ہوتے ہیں اور ڈاکٹر کو دی جانے والی مراعات جن کی شکل اب دیگر مشاغل کی بجائے اکثر وپیشتر نقدی کی شکل اختیار کرچکی ہے کی باقاعدہ بولی لگتی ہے، نیلام عام ہوتا ہے کہ کون سے کمپنی ڈاکٹر کوکتنی رقم دے گی کہ وہ صرف اسی کمپنی کی دوائی مریض کو تجویز کرے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ نیلام عام صرف ایک ہفتے کیلئے ہوتا ہے۔ اگلے ہفتے یہ مکروہ دھندہ پھر دہرایا جاتا ہے اور نئی بولی لگتی ہے۔ ریاست جب ماں کی بجائے ڈائن بن جائے تو اپنے بچے اسی طرح کھاتی ہے۔ ایک ریاست والی¿ سوات کی تھی جہاں کسی کو اس لئے میڈیکل سٹور کا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں تھی کہ مبادا ہسپتالوں کی دوائیاں چوری ہوکران سٹوروں پر بکنا شروع ہو جاتیں یاکوئی جعلی دوائی بنا کر مریضوں کو کھلا دے جن سے والی¿ سوات اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے اور ایک ریاست اب پاکستان ہے جہاں بات اتنی آگے بڑھ گئی کہ ملک کے ایک مقدس ادارے "عدلیہ" نے جب اس کا نوٹس لیا اور چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے ہسپتالوں کے دورے کئے تومعلوم ہواکہ یہ ہسپتال نہیں، قصائی خانے ہیں جہاں ہرروز انسانوں کو جانور سمجھ کر انہیں ”دوائی“ دے کرقتل کیاجاتا ہے جو بچ جائے اسے علاج کا بل دے کر ماردیا جاتا ہے۔ قہر خداکا کہ انسانی دل میں ڈالے جانے واے سٹنٹ تک جعلی نکلے۔ جو ذرا "ہتھ ٹوکا" (کام چلانے والے) قسم کے سٹنٹ تھے وہ نوے ہزار کی بجائے ساڑھے تین لاکھ میں ڈالے جارہے ہیں۔ متعلقہ وزیر کو عدالت بلاتی ہے تو اس کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ میرے ابا کو پچاس سال قبل پیپلز پارٹی نے لاہور میں اسمبلی ہال کے قریب شہید کردیا تھا۔ وزیر صاحب نے ایک قریبی آدمی کو لاہور کے سب سے بڑے دل کے علاج کے ہسپتال P.I.C کا چیف ایگزیکٹو لگاکر پاکستان کے دیانت دار اور ہنر مند ڈاکٹرز کی توہین، قوم کی دولت کو جوئے کا مال سمجھ کر اس کی تنخواہ بھی پانچ لاکھ روپے ماہانہ مقرر کر دی۔ ظلم کی یہ داستانیں اتنی طویل ہیں کہ لکھنے بیٹھ جاﺅں تو دستووسکی کے ناول "ذلتوں کے مارے لوگ" جیسا ضیخم ناول بن سکتا ہے۔ گذشتہ ماہ ”نوائے وقت“ میں شائع ہونے والی ایک خبر بھی یاد آگئی جومیرے دوست اور کلاس فیلو "Ex Service Men Legal Forum" کے صدر کرنل انعام خواجہ نے ایک سوصفحات پر مشتمل ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ ازخود نوٹس لیکر اس امر کی تحقیقات کروائی جائیں کہ کس طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو نوشہرہ ڈپو سے سپلائی ہونے والی ادویات کو بند کرنے کا حکم دیا اور فوج کے ہسپتالوں کو اجازت دی کہ وہ مقامی طور پر خریداری کریں جہاں ادویات کی مانیڑنگ، ٹینڈرنگ، چیک اینڈ بیلنس، لیبارٹری چیک اور کوالٹی کنٹرول کے علاوہ باالخصوص قیمتوں کے تعین کا کوئی نظام موجود نہیں۔ کرنل خواجہ کا کہنا ہے کہ اس طرح اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ ہورہی ہے جس کا روکا جانا قومی مفاد میں ہے۔ کرنل صاحب کو اللہ اور جرات و ہمت عطاءکرے۔ وہ جو وکلاءتحریک میں اعتراز احسن کہاکرتے تھے کہ "ریاست ہوگی ماں کے جیسی".... اس پر تو وہ شاید خود بھی شرمندہ ہوں۔