عمران خان کا آدھا سچ
بعد از خرابی¿ بسیار تحرکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے تسلیم کر لیا کہ اُن کے KPK میں 20 ایم پی اے بکاﺅ مال تھے۔ ضمیر فروشوں کی اتنی بڑی تعداد سے اندازہ لگانا ممکن ہے کہ تحریکِ انصاف کے اراکین کی کیا سوچ اور کیا تربیت ہے۔ اور اراکینِ اسمبلی قیادت کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ ہماری عاجزانہ رائے میں وجہ ظاہر ہے کہ خود عمران خان ایسی شخصیت کے طور پر نمایاں نہیں ہو سکے جو اراکین اسمبلی پر کوئی مثبت اثرات مرتب کر سکیں۔
اب بھی عمران خان نے آدھا بیح بولا ہے اور جو بیح خود اُن کی ذات کو بے نقاب کرتا ہے اُسے چھپانے کی کوشش کی ہے، عمران خان نے وہ نام تو آشکار کر دئیے جو بکنے والوں کے تھے۔ خریدار کا نام بتانے سے دانستہ گریز کیاہے، کیونکہ جو ”اصل“ گناہ ہوا ہے یعنی غیر معروف شخص کا جو زرداری کا انتخاب ہے، بحیثیت چیئرمین انتخاب اس گناہ میں عمران خان برابر کے شریک ہیں۔ زرداری صاحب کو کیا ضرورت تھی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو خریدتے، ظاہر ہے سینٹ میں اکثریت اور چیئرمین لانے کے لئے تو اس کارِخیر میں تو عمران خان نے PP اور زرداری کی بھرپور مدد کی ہے۔ اب عمران خان کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔
عمران خان نے نہ صرف زرداری صاحب کی پسند کے ”چیئرمین“ کو ووٹ دیا ہے بلکہ پی پی کے وائس چیئرمین کو کُھلا ووٹ دیا ہے۔
اتنی نہ بڑھاپا کئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ بند قبا دیکھ
حیرت کی بات ہے جناب رضا ربانی کو بڑی جمہوریت پسند شخصیت کے طور پر Project کیا جا رہا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے انہوں نے پاکستان کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ ”اصول پسند“ ربانی آج بھی اُسی تنخواہ پر زرداری صاحب کی اطاعت فرما رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کی اپنی سوچ کیا ہے؟ اُنہیں مشیرانِ کرام misguide کرتے ہیں۔ رضا ربانی بھی ہیرو بن گئے....اور اب جو لوگ ہیرو بن رہے ہیں تو پتہ چل جائے گا جب گورنری اور وزارتیں جائیں گی کہ کتنا ساتھ دیتے ہیں....بڑے بڑے جلسوں میں عوام نے ووٹ کی حُرمت کے حق میں رائے دے دی تو بند کمرے میں سیمینار کی کیا ضرورت تھی۔ ووٹ بکے اور خوب بکے۔ KPK میں خود عمران خان گواہ ہیں۔ بلوچستان کا منظر دُنیا نے دیکھا۔ سندھ میں PP کے سنیٹر بنانے کے لئے نام نہاد انقلابی اور نظریاتی جماعت MQM کے ٹکڑے کر دئیے گئے”کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا۔
KPK میں اورسندھ میں خواتین اراکین نے تو ضمیر فروشی میں ذرا دیر نہیں لگائی....پہلے سنیٹر کے الیکشن میں بِکے، باقی چیئرمین کے الیکشن میں فروخت ہو گئے۔
حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ کرپشن سے پاک معاشرہ قائم کرنے کے علمبرداروں، نیب، الیکشن کمیشن اور کسی عدالت نے اس ”عظیم کرپشن“ پر کوئی توجہ نہیں دی ہے....تحقیق اور تفتیش کر کے بکنے والوں اور خریداروں کی فہرست کیوں نہیں بنائی جاتیں؟ کیوں اقدام نہیں ہو رہا۔ کونسی حکمت اور مصلحت آڑے آ گئی ہے....یہ مفادِ عامہ کا اہم ترین معاملہ ہے کہ خود عزت مآب چیف جسٹس آئینی اور قومی ادارے میں خرید و فروخت کے معاملے پر توجہ فرمائیں....آئینی اداروں کی تشکیل میں Honesty اور Fairness نہیں ہو گی۔....تو اِن اداروں کا فائدہ کیا ہے؟
عمران خان کی سیاست بھی عجیب ہے۔ بھائی! اُن لوگوں کا بھی تو نام لو جو کروڑوں روپے صوبائی اسمبلیوں کے اراکین میں تقسیم کر کے اُن کے ووٹ اور ضمیر کو خرید رہے تھے۔ عمران خان عجیب ”مجاہدِ ملت“ ہیں۔ اُس شخصیت کا نام لینے سے گھبراتے ہیں، جس نے کھلے عام خرید و فروخت کا بازار گرم کیا....وہ نام کس کو معلوم نہیں ہے۔ مگر سب خاموش ہیں۔ صوبائی اسمبلی سندھ، KPK اور بلوچستان کے اراکین کی فروخت پر تو ساری سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈر متفق ہیں، اب نیب اور الکیشن کمیشن اُس شخصیت کو تلاش کریں Investigate کریں، جس نے اس پیمانے پر سینٹ الیکشن کو برباد کر ڈالا۔ اداروں کی اخلاقی حیثیت نہ ہو تو اُن کا کوئی وقار نہیں ہوتا....اگر سب ایک سیاستدان کے ہی پیچھے پڑ گئے ہیں تو اور بات ہے....مقصد کرپشن کو ضرب کاری لگانا ہے تو سینٹ الیکشن کی خبر لیں۔ اصلاحِ احوال کے دروازے کُھل جائیں گے۔ سینٹ الیکشن کے ڈاکوﺅں اور ضمیر کی خرید و فروخت کو دانستہ نظر انداز کر دیا گیا تو سب بیکار کی بات ہے۔
تیرا ہی دل نہ چاہے تو
باتیں ہزار ہیں