کورٹ کچہری کے معاملات
مکرمی! میرا اکثر اوقات ماڈل ٹاو¿ن کچہری والی سڑک پر سے گذرنا ہوتا ہے۔ وکلا حضرات کے چیمبر سڑک کے کنارے کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ سڑک سے گذرنا یا گاڑی پارک کرنا دشوار ہو چکا ہے۔ سڑک کے کنارے بیٹھے عرضی نویس میز کرسی رکھے اوتھ کمشنر کی تختی میز پر سجائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ایک مرتبہ بیان حلفی لینا تھا۔ کچہری پہنچا۔ سڑک پر بیٹھے عرضی نویس کے پاس گیا۔ اس نے شناختی کارڈ لے کر دراز میں سے اشٹام نکالا، تحریر کیا پھر دراز میں سے ایک بوسیدہ سی مہر نکالی، دو جگہ لگائی اور میرے سامنے ہی اوتھ کمشنر کی مہر پر دستخط کئے اور بیان حلفی مجھے تھما دیا۔ میری جرا¿ت نہ ہوئی کہ پوچھوں کہ آپ ”اوتھ کمشنر“ ہیں؟ اگلی بار زکوة کے بارے میں ECLARATION بنوانا تھا۔ اس مرتبہ باہر بیٹھے اشٹام فروش کی بجائے ایک وکیل کے چیمبر میں چلا گیا۔ وکیل صاحب کا کلرک بیٹھا تھا میں نے مدعا بیان کیا۔ اُن صاحب نے سادہ Stamp Paper نکالا۔ کسی اور کے کمپیوٹر سے پرنٹ نکال کر لایا۔ وہی عمل اس نے کیا اور ایک لفافے میں ڈال کر Declaration مجھے تھما دیا اور میں یہ ”قانونی“ دستاویز لے کر بنک دے آیا۔ میں نے یہ معمولی مثالیں عرض کی ہیں۔ عدالتوں کے معاملات بہت طویل اور درد ناک ہیں جو کہ قابل غور اور اصلاح طلب ہیں۔ (وحید الدین شیخ۔ لاہور)