پاکستان میں کھیل کے میدان....قومی صحت اور عزت و وقار کانشان
مکرمی! اولمپک گیمز میں 1928ءسے 1968ءتک چالیس سال برصغیر پاک وہند ہاکی کے کھیل میں بلا شرکت غیرے اعزاز کے ساتھ چیمپئن رہا 1960ء، 1968ء، 1984ءکے عالمی مقابلوں میں پاکستان نے گولڈ میدل جیتا۔ جبکہ دو مرتبہ پاکستان کے پاس دنیائے ہاکی کے تین عظیم ٹائیٹل رکھنے کا بھی اعزاز رہا جن میں ایشیئن، اولمپکس اور ورلڈ کپ کے چیمپئن کے ٹائیٹل ہیں۔ کرکٹ کو فروغ ملتا گیا۔ دنیا کی فرسٹ کلاس کرکٹ ٹیموں میں ہمارا شمار ہوتا رہا۔ آہستہ آہستہ ہم کھیلوں میں زوال کے موجودہ مقام تک پہنچ گئے۔ اور چھوٹے چھوٹے کم آبادی والے ملک ہم سے کہیں آگے نکل گئے۔ پاکستان میں 25 سال تک کی عمر کے جوانوں کی تعداد تقریباً دس کروڑ ہے لیکن کھیلوں میں ہماری زبوں حالی لمحہ¿ فکریہ ہے سکول اور کالج کی صورت میں کھیلوں کے لئے کبھی ہماری یہ نرسریاں احسن انداز میں کام کر رہی تھیں۔ پھر سرکاری اور نیم سرکاری تعلیمی ادارے سمٹتے گئے اور پرائیویٹ اداروں کی تعداد بڑھتی گئی جن میں کھیل کے میدان مفقود نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ اب بچے اور لڑکے کالونی/ محلّہ کی گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کھیلنے کے لئے کھُلی جگہ چاہیے۔ نئی پود میں کھیل کا شوق تو ہے اور Talent بھی لیکن ہمارے شہری ادارے ضرورت کے مطابق ان کے گھروں کے نزدیک کھیل کے میدان مہیّا نہ کر سکے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل بھی ایک مفید سرگرمی ہے۔ نئی نسل کے لئے کھیلوں کے میدان مہیّا کرنا ضروری ہے تاکہ پڑھائی کے بعد وہ اپنا وقت مثبت سرگرمیوں میں گذار سکیں۔ (پروفیسر سرور شفقت)