گریٹ گیم کے آخری معرکہ کی تیاریاں
مئی 1989ءمیں روس کے سابق صدر گوربا چوف نے بیجنگ میں چین کی قیادت سے ملاقات کی۔ اس ملاقات سے قبل روس کی حکومت نے چین کے ساتھ تمام تنازعات باہمی رضا مندی سے ختم کر دئیے۔ روس اور چین کی چوٹی کی قیادت میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اپنے اپنے ملک سے دونوں ممالک، ریل اور سڑک کے ذریعے راہداری دینگے۔ زیادہ اہم معاملہ کاشغر گوادر راہداری تھا جس میں روسی، زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ اس وقت، روس اور چین کے درمیان مفاہمت ہوئی اور طے ہوا کہ پاکستان کو دونوں ممالک راضی کریں گے اور مستقبل میں مکمل ہونے والی کاشغر، گوادر راہداری میں روس کو بھی شامل کیا جائے گا۔ یوں گریٹ گیم سے شروع ہونے والی مفاہمت سے بحرہند تک روس کی رسائی کا دیرینہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔
پاکستان نے 1956ءمیں امریکہ کے ماہرین ارضیات کو ساحل کے سروے کا ٹھیکہ دیا کہ موزوں بندرگاہوں کی نشاندہی کرے GS امریکی سروئیر ورتھ کونڈ برک اور اس کی ٹیم نے سر کریک سے لیکر ایرانی سرحد تک سروے کر کے دیگر بندرگاہوں کی نشاندہی کی مگر گوادر بندرگاہ کو ان میں نمایاں طور پر انتہائی اہم قرار دیا۔ دسمبر 1957ءمیں ملک فیروز خان نون وزیراعظم بنے تو انہوں نے گوادر کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ 1784ءسے گوادر اور ملحقہ علاقہ سلطان آف مسقط ، عُمان کے زیر تسلط رہا تھا۔ سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی کوششوں کے باعث اور زر خطیر کے عوض گوادر اور نواحی علاقہ 7 ستمبر 1958ءکو پاکستان میں شامل ہوگیا۔ اس کے ایک ماہ بعد 7 اکتوبر 1958ءکو سابق صدر اسکندر مرزا نے پاکستان میں مارشل لاءلگایا اور 1956ءکا دستور ختم کر دیا۔ اس کے 20 روز بعد جنرل محمد ایوب خان سکندر مرزا کو جلاوطن کر کے خود مطلق العنان حکمران بن گئے۔ اس کے بعد گوادر حکومتی عدم دلچسپی سے دو چارہوگیا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں روس نے سفارتی ذرائع سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھائے اور گوادر تک رسائی میں دلچسپی ظاہر کی۔ ڈیورنڈ لائن سے متعلق بھی سردار داو¿د کے ساتھ سفارتی سطح پر مذاکرات کئے جاتے رہے۔ آخر طے ہوا کہ اگست 1977ءمیں یوم آزادی کے موقع پر اسلام آباد میں سردار داو¿د تشریف لائیں گے اور ڈیورنڈ لائن سرحد قرار دینے کے اعلامیے پر دستخط ہونگے مگر بھٹو حکومت کے لئے وہ دن نہیں آیا۔ گوادر ایک بار پھرمنظر سے غائب ہو گیا۔
روس، افغانستان میں جنگ میں الجھا ہوا تھا 1980ءکی دہائی میں افغانستان کی جنگ کا کوئی انت نظر نہیں آ رہا تھا۔ چین کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لئے روس کے صدر میخائل گوربا چوف نے جون 1986ءمیں مذاکرات کی دعوت دینے کے لئے ولادی دوستوک میں کہا کہ ”سوویت یونین کسی بھی وقت کسی بھی سطح پر چین کے ساتھ برادرانہ پڑوسی تعلقات کے فروغ کا ماحول تیار کرنے کے لئے مذاکرات پر تیار ہے۔‘
‘ چین نے تعلقات کی بہتری کے لئے تین پیشگی شرائط رکھیں‘ یہ کہ ”روس‘ ویتنام کا کمبوڈیا پر قبضہ ختم کرائے۔ سوویت یونین افغانستان سے نکل جائے، اور چین کی سرحد پر تعینات روسی فوجیں ہٹا لی جائیں۔ روس نے تینوں شرطیں پوری کیں اور پھر مئی 1989ءمیں بیجنگ میں روس اور چین کی چوٹی کی قیادت نے ملاقات کی جس کا ذکر شروع میں آ چکا ہے۔
2018ءمیں روس کی قیادت ولادیمیر پیوٹن نے سنبھالی ہوئی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے ساتھ روسی جاسوس کو زہر دے کر قتل کروانے کے واقعے پر شدید سفارتی کشمکش سے بے پروا منتخب صدر ولادیمیر پیوٹن نے چوتھی مدت (07 مئی 2018ءتا 07 مئی 2024ئ) کا حلف اٹھا لیا ہے جسے بی بی سی نے نمایاں طور پر دنیا بھر میں دکھایا جبکہ سی این این پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خفگی دیدنی تھی۔ انہیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرےں بس ایران کو کوستے رہے۔
8 مئی 2018ءکو امریکہ نے مغربی ممالک کے ساتھ کئے گئے ایران کے ایٹمی معاہدہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور ایران پرمزید اور سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی انڈیا نے ایران کے ساتھ کی گئی مفاہمتی یادداشتوں پر عملدرآمد کو ناممکن قراردے دیا ہے۔ انڈیا توقع رکھتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مسائل کو قالین کے نیچے ڈال کر کلکتہ کابل اور پاکستان کے اندر سے دیگر راہداریوں سے استفادہ کرے۔ ممکن ہے کہ 2018ءکے انتخابات کے بعد اس نوعیت کی قیادت پاکستان میں حکمران بنے جو بلاجھجک پاکستان کے مفادات کا سودا کرتی رہے اور انڈیا کے قومی مفادات کو فائدہ پہنچائے۔ کیا پاکستان کے عوام ایسا ہونے دیں گے؟
ایسے کئی سوالات ہیں جو گریٹ گیم کی معرکہ آرائی کے اسباب پیدا کر کے پاکستان میں انتشار‘ فساد اور خدانخواستہ خونریزی کا سبب بن سکتے ہیں۔ یوں پاکستان کے اندر گریٹ گیم کے آخری معرکہ کے لئے تیاریاں کی جا چکی ہیں۔ مگر اعتماد بھی ہے کہ افواج پاکستان نے ملک کی بقا کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے ملک‘ ملت اور معاشرے کی حفاظت کی ہے تو گریٹ گیم کے آخری معرکہ کو بھی سر کر لیں گی۔ اللہ پاک پاکستان کو قائم و دائم رکھے۔ آمین