مودی کے چار سال ....ایک نظر !!
کسی بھی سرکار کے کام کاج کا جائزہ لینے کیلئے چار سال کا عرصہ کافی ہوتا ہے بلکہ مبصرین کے مطابق حقیقت تو یہ ہے کہ ووٹرز عام طور پر ابتدائی کچھ عرصے میں ہی کئے گئے کام اور اقدامات کے پیشِ نظر اس حکومت کے بارے میں ایک رائے قائم کر لیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے مودی کے چار سال کی کارکردگی پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں۔ یہ ایک زمینی حقیقت کہ بھارت میں کاروبار کرنے کی سہولت سے جڑے ورلڈ بینک کے انڈیکس میں انڈیا بتدریج نیچے پھسل رہا ہے ۔ ایسے میں غیر ملکی سرمایہ کاروںکے احساسات منفی شکل اختیار کر رہے ہیں ۔ مودی حکومت کا اپنے ہمسایوں سے بالعموم اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں خاص طور پر جارحیت اور اشتعال انگیزی کا رویہ انتہائی غالب رہا ۔ اسکی ایک تازہ مثال موصوف کے دورہ مقبوضہ کشمیر کے دوران سامنے آئی جہاں انھوں نے ایل او سی سے فقط کچھ دور متنازع ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ لبرل ڈیموکریسی کے بھارتی امیج کی ساکھ عالمی سطح پر متاثر ہو رہی ہے اور مودی سرکار دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ مذہبی اقلیتوں کیخلاف بھارت میں تشدد کو بے پناہ فروغ حاصل ہوا ہے۔ یہ عالمی سطح پر عیاں ہو چکا ہے کہ مودی کے بھارت میں اقلیتوں کا بدترین استحصال جاری ہے ، علاوہ ازیں نہتے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی روز مرہ کا معمول بن کر رہ گیا ہے اور اس ضمن میں بھارت کا سیکولر ازم محض لفظ بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں ایک خطرناک تسلسل کے ساتھ پے در پے اقلیتوں اور دلتوں پر حملے ہوتے ہیں اور اس معاملے کا یہ پہلو اور بھی سنگین ہے کہ انکے مجرموں کو کوئی سزا نہیں ملتی بلکہ اس کی بجائے انکے تحفظ کےلئے حکومتی سطح پر مشینری حرکت میں آ جاتی ہے۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو نشانے پر لینے کے مسلسل واقعات سے” 56 انچ چوڑی چھاتی والے طاقتور وزیراعظم “ کی خاموشی اور چشم پوشی سے بھارت کے اندر اور بیرونی دنیا میں کوئی اچھے سگنل نہیں جا رہے اور یہی وہ سب سے بڑا عنصر ہے جہاں مودی انتظامیہ اور پہلے کی حکومتوں میں سب سے بڑا فرق نظر آیا ہے۔ اس ضمن میں یہ حقیقت بھی مدِ نظر رکھی جانی چاہیے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی سو فیصد جمہوریت موجود نہیں ہوتی مگر نسبتاً زیادہ لبرل جمہوری شناخت اور ایسا بننے کی کوشش اچھی سمجھی جاتی ہے مگر اس بابت مودی کی قیادت میں گویا بھارت زوال کے سفر پر قدم رکھ چکا ہے اور عالمی سطح پر اس تاثر کا پیدا ہونا بڑے خطرے کی بات سمجھی جانی چاہئے ۔
مودی کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کہنے والے گری راج سنگھ کو مرکزی کابینہ میں جگہ دی گئی ۔ بی جے پی رہنما کیلاش وجے ورگیے ، ڈاکٹر سبرا منیم سوامی، یوگی ادتیہ ناتھ، اوما بھارتی و دیگر کو نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی موجودگی کو بھارتی ثقافت اور کلچر پر دھبہ قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس داغ کو ” لو جہاد “ ،” گھر واپسی “ اور ” بہو لاﺅ، بیٹی بچاﺅ “ جیسی مہموں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی نس بندی اور ان سے ووٹ کا حق واپس لینے جیسی منفی کوششیں جاری ہیں اور ظاہر ہے اسکے منطقی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھارتی پنجاب کے سابق DG پولیس جولیو روبیرو، بھارتی سپریم کورٹ کے حاضر سروس کئی جج، کئی اداکار، انسان دوست شخصیات اس ضمن میں مودی سے خط کے ذریعے تحریری شکایت کر چکے ہیں۔ جیسے کہ حالیہ دنوں میں دہلی کے بشپ نے خط لکھ کر بھارت میں بڑھ رہی زعفرانی دہشتگردی پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ دوسری جانب خواتین کے خلاف جرائم میں 44 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے اور کسانوں میں غربت کی وجہ سے خود کشی کرنے کا عمل پچھلے چار سال میں خطر ناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔ بیروزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے اور مسلم عیسائی اور سکھ اقلیتیں خود کو اور بھی غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں ۔ ممبئی و یو پی کے کئی علاقوں میں لوگوں کو اس وجہ سے کرایہ پر دکان یا مکان نہیں دیا جا رہا کیونکہ وہ مسلمان ہے ۔ کسی مسلمانوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ کمپنی کی پالیسی ہے کہ کسی مسلمان کو ملازمت نہ دی جائے اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔
حرفِ آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مودی سرکار جس کے جانے میں محض ایک سال بچا ہے، اب ایسی نہیں رہی کہ جسکے آغاز میں مودی میجک کی بات کی جا رہی تھی ۔ لیکن چار سال گزرنے کے باوجود مودی اب بھی جادو یا لمبے چوڑے دعووں کے آسمان سے نیچے اتر کر حقیقت کی کھردری زمین پر اپنے قدم نہیں بڑھا پائے ، جو اتنا آسان کام بھی نہیں اور یہی انکی اصل آزمائش تھی ۔ بہرحال شاید مودی کو اس کا کچھ ادراک تو ہوا بھی ہے تبھی انہوں نے اپنی تقریروں میں دانستہ اپنے روایتی جملے ”اچھے دن آ گئے “کی بجائے ”برے دن چلے گئے“ کہنا شروع کر دیا ہے۔مبصرین کےمطابق مودی کی جانب سے یہ بالواسطہ طور پر اپنی ناکامیوں کا اعتراف ہے ۔ انہوں نے عوامی فلاح کی جانب کوئی توجہ نہ دی ۔ نئے نئے ڈیزائنوں کے لباس پہن کر اور محض تقریروں کے بل بوتے پر تبدیلی لانے کے عمل کو تو راہل گاندھی بجا طور پر ” سوٹ بوٹ “ والی سرکار قرار بھی دے چکے ہیں۔ ایسے میں بھارتی وزیر خزانہ ارون جیتلی کے ان دعووں پر کون یقین کرے گا کہ یہ سوجھ بوجھ والی سرکار ہے ؟