ہفتہ‘ 10 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 26 مئی 2018ء
شہزادہ ہیری کی نوبیاہتا بیوی میگھن کو شاہی آداب سکھانے کی تیاریاں
پرنس آف ویلز (ولی عہد) چارلس اور آنجہانی لیڈی ڈیانا کے چھوٹے بیٹے ہیری (پیدائش 1984) کی دو بار کی مطلقہ اور صاحب اولاد امریکی اداکارہ میگھن مارکل سے شادی گزشتہ جمعرات کو لندن میں بڑے دھوم دھام سے انجام پائی۔ اس موقع پر برطانیہ میں تعطیل تھی۔ تقسیم سے پہلے تک ہم تاج برطانیہ کے ماتحت تھے۔ مڈل، میٹرک اور ایم اے تک کے امتحانی پرچوں میں ”راج کی برکات“ کے عنوان سے دس نمبر کا سوال لازماً حل کرنا پڑتا تھا ۔”راج کی برکات“ میں سے ایک برکت یہ بھی تھی کہ راج کے سربراہ کی تخت نشینی پر پوری برٹش ایمپائر میں چھٹی ہوا کرتی تھی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سلطنت انگلیشیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اس چھٹی کو سوگ کی چھٹی نہیں کہا جاتا تھا حالانکہ نیا بادشاہ اس وقت ہی تخت نشین ہوتا تھا جب پہلے کا انتقال ہو جاتا تھا۔ جنازے کی آخری رسوم کی ادائیگی اور تخت نشنیی کا جشن ایک ساتھ ہوتا تھا۔ سلطنت برطانیہ کے عوام (بلکہ غلام) ولی عہد اور شاہی خاندان کے دیگر ارکان کی شادیوںپر چھٹیوں سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ رائلز (جن پر صدیوں یہ خبط سوار رہا تھا کہ وہ حکمرانی کیلئے ہی پیدا کئے گئے ہیں) کی شادی میں ہندوستان کے بڑے بڑے راجگان اور نوابوں کو خصوصی دعوت دی جاتی تھی۔ نظام آف حیدر آباد راج کے ”یار وفادار“ کی حیثیت سے ان تقریبات میں شرکت کیا کرتے تھے۔ اب اس شادی میں بھارت سے صرف پریانکا چوپڑہ کو شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ ایک زمانے میں اگر برطانیہ کا بادشاہ یا ولی عہد کسی مطلقہ عورت سے شادی پر اصرار کرتا تو اسے تخت و تاج سے ہاتھ دھونا پڑتے۔ شہزادہ ہیری (جس کا تخت کے وارثوں میں 5واں نمبر ہے) کی دادی محترمہ کے تایا جان، ایڈورڈ ہشتم ملکہ وکٹوریہ کے پوتے تھے اور بڑے کروفر سے تخت نشین ہوئے۔ تخت نشینی سے قبل ہی ان کا ایک مطلقہ امریکی خاتون مسز سمپسن سے معاشقہ چل رہا تھا۔ تخت نشینی کے بعد شاہ نے مسز سمپسن سے شادی کرنا چاہی۔ پارلیمنٹ (دارالامرا اور دارالعوام) نے اس شادی کی مخالفت کی۔ جھگڑا اس حد تک بڑھا کہ شاہ کو تخت یا مسز سمپسن میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا۔ ایڈورڈ ہشتم نے تخت کو لات ماری اور مسز سمپسن سے شادی کر کے حسن و عشق کی ایک نئی اور دلگداز داستان رقم کر ڈالی۔ یہ آج سے تقریباً 80 سال پہلے کی بات ہے۔ اس عرصے میں زمانے کے چلن ایسے بدلے کہ شہزادہ ہیری نے ایک ایسی عورت سے شادی کر لی جو دو بار کی مطلقہ اور ان سے عمر میں تین سال بڑی ہے۔ مارکل میگھن اب مارکل میگھن نہیں رہیں بلکہ شہزادہ ہیری سے شادی کے بعد ڈیوک آف سوسیکس کی رعایت سے ڈچز آف سوسیکس کہلانے لگی ہیں۔ انہیں شاہی آداب کے ضمن میں کیا کچھ سیکھنا پڑے گا اس کی تفصیل دلچسپ ہے اور بہت طویل بھی۔ لہٰذا مزید پھر کبھی سہی!
٭....٭....٭....٭
چھوٹی اور بڑی عید پر بھارتی فلموں کی نمائش بند کر دی گئی
یہ اگرچہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ یہ فیصلہ کرنے والے قوم کے بڑے ہمدرد ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی پر دس بیس دن کے لئے بھارتی فلموں کی بندش میں کیا حکمت پوشیدہ ہے اس کا علم پابندی لگانے والوں کے سوا کسی کو نہیں۔ بہتر ہوتا کہ بھارتی فلموں پر مستقل پابندی لگا دی جاتی۔ بھارت میں اب جو فلمیں بن رہی ہیں ان کا تعلق کسی طور بھی فنون لطیفہ سے نہیں۔ ایسی کہانیوں کا تو اب نام و نشان باقی نہیں رہا جنہوں نے ایک زمانے میں بعض فلموں کو لازوال شاہکار بنا دیا۔ آج کی بھارتی فلموں میں اچھی کہانی، شاعری، گلوکاری، موسیقی، کلاسیکل رقص نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ عریانی اور فحاشی میں مغربی ملکوں کی فلمیں بھی بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ سینکڑوں نیم عریاں لڑکے اور لڑکیاں نہایت لچر اور فحش قسم کی اچھل کود کر رہے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر شائستگی اور شرافت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسی فلموں کی نمائش کا پاکستان میں کیا جواز ہے جو نہ صرف مخرب اخلاق بلکہ بدذوقی کا گھٹیا ترین مظاہرہ ہیں۔ اردو اور پنجابی دنیا ابھی اچھے کہانی نویسوں، مکالمہ نگاروں، شاعروں، موسیقاروں سے خالی نہیں ہوئی۔ ہمیں اپنے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ انہیں اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور خوابیدہ اہلیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع اور سازگار فضا فراہم کرنی چاہئے۔ بھارتی فنکاروں کے فن اور حسن سے ہم احساس کمتری کی حد تک مرعوب ہیں۔ قدرت نے پاکستانیوں کو خوبصورتی اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بڑی فیاضی سے نوازا ہے۔ ہماری دینی اور تہذیبی روایات اجازت نہیں دیتیں وگرنہ عالمی حسن کا مقابلہ ہمارے مہ پارے ہی جیتا کریں۔ ارباب بست و کشاد گر پاکستانی معاشرے کو بھارتی ثقافتی یلغار سے مستقلاً نجات دلا دیں تو یہ نہ صرف بانیان پاکستان کا احسان ادا کرنے کے مترادف ہو گا بلکہ ان شہیدوں کے خون کی لاج بھی رکھ لیں گے جنہوں نے یہ سمجھ کر آزادی کی راہ میں جانیں قربان کی تھیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہو گا۔
٭....٭....٭....٭
امریکہ میں پاکستانی قونصل جنرل کی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے دو گھنٹے ملاقات۔ خیریت دریافت کی
امریکہ میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے ناکردہ گناہوں کے جرم میں ٹیکساس جیل میں محبوس ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی جو دو گھنٹے جاری رہی۔ عائشہ فاروقی کی 14 ماہ میں ڈاکٹر عافیہ سے یہ چوتھی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ، ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں، بلکہ سائنس کے ایک مضمون میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اس ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر چلنے والی ڈاکٹر عافیہ کی رحلت کی خبریں دم توڑ گئیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہایت ذہین خاتون تھیں لیکن صدر پرویز مشرف کے ”وجود بابرکات کے لامتناہی فیوض و احسانات“ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے حوالے کرتے وقت یہ بھی نہ پوچھا کہ اس بے چاری کا قصور کیا ہے؟ امریکیوں نے اُسے بدنام زمانہ عقوبت خانوں، بگرام اور گوانتاناموبے میں ایسے وحشیانہ تشدد سے گزارا کہ بے چاری کے نہ ہوش و حواس سلامت رہے نہ ہڈی پسلی اور نہ حلیہ۔ عافیہ صدیقی کی چیخوں سے زمین و آسماں ہل کر رہ گئے لیکن اُس پرظلم ڈھانے والے وحشیوں کو ترس نہ آیا۔ اُس پر ہونے والے ظلم و تشدد کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئیں جن پر تبصروں میں ایک جملہ تقریباً سبھی مبصروں نے لکھا کہ ”عافیہ پر امریکی عقوبت خانوں پر ہونے والے مظالم پر پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں“ جب مظالم کی حد ہو چکی اور امریکی عافیہ سے سپرطاقت کے وجود کو خطرے میں ڈالنے والی کوئی چیز برآمد نہ کر سکے تو پھر اِدھر اُدھر سے من گھڑت شواہد جمع کر کے اُسے ایک ”عدالت“ سے 85 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔ اس عدالت کے جج بھی اپنی مثال آپ تھے، ابھی تک کسی ماں نے ایسا جج نہیں جنا، عافیہ موت سے بھی بدتر حالت میں ہے، یوں پاکستان کے ایک زرخیز اور ذہین دماغ کو ناکارہ بنا دیا گیا اگر وہ ”زندہ“ رہتی، تو ملک و قوم کے لئے یقیناً اثاثہ ثابت ہوتی!