ڈاکٹر شکیل آفریدی کے حوالے سے مشرف کی غدارانہ سوچ
سابق صدر پرویز مشرف نے غیر ملکی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر وہ اس وقت ملک کے صدر ہوتے تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر کے امریکہ کے حوالے کرنے پر رضامند ہو جاتے، بشرطیکہ کچھ لو اور کچھ دو کے تحت امریکہ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ طے پا جاتا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اختلافات کی وجہ افغانستان کی صورتِ حال ہے، پرویز مشرف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر قدیر خان نے جوہری مواد شمالی کوریا اور ایران کو منتقل کیا تھا۔
سابق آمر کی من مانے فیصلوں کا خمیازہ قوم ابھی تک امریکہ کو پاکستان کی سرزمین غیر مشروط استعمال کرنے کی اجازت دینے کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر شکیل کے ایشو پر امریکہ سے کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے تو یہ سابق جرنیلی آمر کی بھول ہے۔ امریکہ نے ڈاکٹر آفریدی سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا۔ اب وہ اس کی رہائی کے بدلے میں دس ڈالر دینے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔ اسکے برعکس حقیقت پسندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کورہا کرانے کیلئے سفارتی کوششیں بروئے کار لائی جاتیں جس پر بغیر کسی وجہ کے مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ اُسکے مقابلے میں ڈاکٹر آفریدی کی غداری کی فطرت میر جعفر، میر قاسم اور میر صادق سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے۔ امریکہ ڈاکٹر آفریدی کے وزن کے مساوی سونا دینے پر بھی راضی ہو جائے تو اُسے امریکہ کے حوالے کرنے کا سوچنا بھی غداری ہو گی۔ اُسکی مذموم حرکت نے وطن عزیز کو عالمی برادری کے سامنے دہشت گردی کے سرپرست کی حیثیت سے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ۔ مشرف کی خوش نصیبی ہے کہ وہ حکمرانوں کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھا کرملک سے باہر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ورنہ اُنکے اپنے کارنامے بھی غداری کے اعتبار سے ڈاکٹر شکیل آفریدی سے کم نہیں‘ پرویز مشرف ابھی تک کہے جا رہے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خاں نے شمالی کوریا اور ایران کو جوہری مواد فراہم کیا تھا۔ ان دنوں، امریکہ کے ایران اور شمالی کوریا کے خلاف رویے کی روشنی میں ، ایسی باتیں شعلوں کو ہوا دینے کے مترادف ہیں ،کوئی محب وطن ایسی باتیں نہیں کرتا۔