نواز شریف کا چیئرمین نیب کو ایک اور قانونی نوٹس
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے چیئرمین قومی احتساب بیورو جسٹس (ر) جاوید اقبال کو دوسری مرتبہ قانونی نوٹس بھجوا دیا ہے۔ نواز شریف نے یہ نوٹس نیب کی جانب سے 4.9ارب ڈالر کی رقم بھارت منتقل کرنے کے الزام پر بھیجا ہے۔ نوٹس میں سابق وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کی جانب سے لگائے الزامات کو قبل از وقت دھاندلی قرار دیتے ہوئے کہا جسٹس (ر) جاوید اقبال 14روز میں معافی مانگیںاور ایک ارب روپے کا ہرجانہ ادا کریں۔
اس سے قبل ایک قانونی نوٹس سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اے کے ڈوگر کی جانب سے 17مئی کو بھجوایا گیا تھا۔ اس قانونی نوٹس میں چیئرمین نیب کے مستعفی ہونے اور بے بنیاد الزامات پر نواز شریف سے معافی مانگنے کو کہا گیا تھا مگر چیئرمین نیب کی طرف سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا بلکہ نواز شریف اور پارٹی رہنماﺅں کے شدید رد عمل پر چیئرمین نیب نے بھی سخت جواب دیا تھا۔مذکورہ الزامات پرریفرنس دائر ہوتا یاہے نہیں مگر ایسے الزامات سامنے آنے سے ملزم کی ساکھ ضرور متاثر ہوتی ہے۔ جب بات سابق وزیراعظم اور ایک بڑی پارٹی کے رہبر کی ہو، اسکی پارٹی حکومت میں ہو اور انتخابات سر پر ہوں تو اس لیڈر کی اپنی ساکھ اور پارٹی مقبولیت کو دھچکا پہنچنا فطری امر ہے۔ چیئرمین نیب کو ایک قانونی نوٹس بھجوایا گیا جس پر انہوں نے معافی مانگی نہ الزامات واپس لیے، جس پر سابق وزیراعظم کو ازالہ حیثیت عرفی کیلئے پھر قانونی نوٹس بھجوانا پڑا۔ ایسے معاملات میں یہی مناسب طریقہ کار ہے جو ایک بڑی پارٹی کے رہبر کی طرف سے اختیار کیا گیاہے۔ چیئرمین نیب سرِدست اپنے اقدام کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ میڈیا میں جس طرح اس معاملے کو لائے بہتر تھا ناقابل تردید ثبوت بھی میڈیا کے سامنے رکھ دیتے۔ شاید ان کے پاس ایسے ثبوت موجود ہوں جو وہ اس عدالت کے سامنے رکھ سکتے ہیں جس سے نوٹس کی میعاد مکمل ہونے کے بعد نواز شریف نے ازالہ حیثیت عرفی کےلئے رجوع کرینگے۔ چیئرمین نیب کے عہدے کا تقاضہ ہے کہ وہ کوئی جھول والی اور محض سنی سنائی بات نہ کریں ، اگر ایسی بات ہوگئی ہے تو انا کا مسئلہ بہرحال نہیں بنانا چاہیے مگر انکے بیان اور باڈی لینگوئج سے لگتا ہے کہ انہوں نے یہ پریس ریلز پکے قدموں پر کھڑے ہو کر جاری کی۔ فریقین میں سے کون حق پر ہے‘ اس کا تعین تو عدالتی فیصلے سے ہی ہوگا۔ اس سے پہلے فریقین کو اب ایشو پر بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔