انضمام کی مخالفت کرنیوالے دونوں قائدین کو اب اپنی حیثیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوجانا چاہیے
فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کیلئے 31ویں آئینی ترمیم کی بھاری اکثریت سے منظوری۔ رخصت ہونیوالی پارلیمان کا بڑا کارنامہ
قومی اسمبلی میں فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کرنے کا بل گزشتہ روز دو تہائی سے زائد اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔ بل کے حق میں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اور فاٹا کے ارکان اسمبلی نے ووٹ دیا جبکہ جمعیت علماءاسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے اس بل کی مخالفت کی اور انکے ارکان ایوان سے واک آﺅٹ کرکے باہر آگئے۔ بل کے حق میں 229 جبکہ مخالفت میں صرف ایک ووٹ پڑا جو پی ٹی آئی کے باغی رکن داور کنڈی کا تھا۔ اجلاس کے دوران فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام سے متعلق 31 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا گیا جس کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12‘ اور سینٹ کی آٹھ نشستیں برقرار رہیں گی اور فاٹا کیلئے مختص صوبائی نشستوں پر آئندہ سال 2019ءمیں انتخابات ہونگے۔ اس آئینی ترمیم کے تحت علاقے میں صدر اور گورنر کے بجائے وزیراعلیٰ خیبر پی کے کے اختیارات نافذ ہونگے اور فاٹا کو اگلے دس سال تک سالانہ ایک ارب روپے این ایف سی ایوارڈز کی مد میں اضافی ملیں گے۔ قومی اسمبلی کی منظور شدہ اس آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھا دیا گیا ہے اور فاٹا میں رائج ایف سی آر ختم ہو جائیگا۔ اجلاس کے دوران محمود خان اچکزئی کی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں جبکہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خاں اچکزئی سرے سے اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کا بل قومی اسمبلی میں منظور ہوتے ہی پاراچنار میں قبائلی عوام نے جشن منایا اور بل کی منظوری والے دن کو پاکستان کیلئے یادگار دن قرار دیتے ہوئے خوشی میں ڈھول پر رقص کرتے رہے۔ سینٹ سے منظوری کے بعد یہ بل صدر مملکت کے دستخطوں سے 31ویں آئینی ترمیم کی صورت میں آئین پاکستان کا حصہ بن جائیگا۔
فاٹا کے صوبہ خیبر پی کے میں انضمام کیلئے فاٹا کے ارکان قومی اسمبلی بشمول حکمران مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے گزشتہ سال 2017ءکے آغاز ہی میں ایوان میں آواز اٹھانا شروع کردی تھی جو سیاست اور انتظامی معاملات کے قومی دھارے میں شامل ہونے اور اپنے قبائلی ہونے کی گمنام شناخت کے ازالے کیلئے فاٹا کا کے پی کے میں انضمام چاہتے تھے تاکہ انہیں کے پی کے اسمبلی میں بھی معقول نمائندگی مل سکے۔ فاٹا سے منسلک علاقوں کا یہ المیہ ہے کہ قیام پاکستان سے قبل یہ افغانستان کا حصہ تھے جبکہ قیام پاکستان کے بعد ان علاقوں کو باضابطہ طور پر صوبہ سرحد کا حصہ بنانے کے بجائے انگریز کے لاگو کردہ فیڈرلی کنٹرولڈ ریگولیشن (ایف سی آر) کے ماتحت کردیا گیا۔ اس طرح ان علاقوں میں ایک طرح سے جنگل کے قانون کی حکمرانی مسلط کردی گئی جس کے تحت جرگہ سسٹم اور پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعہ ان علاقوں کا انتظام چلایا جانے لگا جبکہ اس نظام میں متذکرہ علاقوں کے باشندے قومی اور صوبائی وسائل سے استفادہ کرنے سے محروم ہوگئے اور سرحد اسمبلی میں انہیں اس لئے نمائندگی نہ مل سکی کہ یہ علاقے وفاق کے زیرانتظام ہیں۔ اسی بنیاد پر قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشستیں مخصوص ہوئیں جو فاٹا کے عوام کی حقیقی نمائندگی کے زمرے میں نہیں آتی تھیں۔ اس تناظر میں فاٹا کے عوام قیام پاکستان کے وقت سے ہی محرومیوں کا شکاررہے ہیں جنہیں وفاق اور صوبوں کی ملازمتوں میں بھی حصہ نہیں ملتا تھا اور صوبہ سرحد (کے پی کے) میں شامل نہ ہونے کے باعث یہ علاقے اس صوبے کے زیرانتظام ہونیوالے ترقیاتی کاموں سے بھی محروم رہے۔
اسی پس منظر میں فاٹا کے ارکان اسمبلی نے فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کیلئے تحریک کا آغاز اور اس کیلئے وفاقی حکومت پر دباﺅ ڈالنا شروع کیا جبکہ تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی‘ اے این پی اور علاقے کی دوسری نمائندہ تنظیموں نے فاٹا ارکان کے اس کاز کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اس بڑھتے ہوئے دباﺅ کے پیش نظر حکومت نے راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں اصلاحات کمیٹی تشکیل دی جس نے مفصل غوروفکر اور تمام پارلیمانی جماعتوں کی رائے حاصل کرکے فاٹا اصلاحات بل کا مسودہ تیار کیا جس کی وفاقی کابینہ نے 21 مارچ 2017ءکو منظوری دے دی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے ذریعے فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کیلئے حکمران مسلم لیگ (ن) کے آمادہ ہونے کے بعد حکومتی حلیف دو جماعتوں جمعیت علماءاسلام (ف) اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے قائدین مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے کے پی کے میں فاٹا کے انضمام کی مخالفت کا بیڑہ اٹھالیا جبکہ ان دونوں جماعتوں کو کے پی کے میں نمائندگی حاصل ہے۔ انہوں نے محض اپنی انفرادی مفاداتی سیاست کے تحت یہ شوشہ چھوڑا کہ فاٹا کے عوام کے پی کے میں انضمام کے بجائے اپنے الگ صوبے کی تشکیل چاہتے ہیں جبکہ فی الحقیقت فاٹا کے عوام کی غالب اکثریت خود کو کے پی کے میں شامل کرنے کی خواہش مند رہی ہے جس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ انکے نمائندہ ارکان اسمبلی اور وہاں نمائندگی رکھنے والی دوسری سیاسی جماعتوں تحریک انصاف‘ اے این پی‘ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی جانب سے بیک آواز فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کیلئے آواز اٹھائی گئی۔ اس تناظر میں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی محض اپنی تھانیداری قائم کرنے کی خاطر فاٹا کا الگ صوبہ بنانے کی وکالت کرتے رہے ہیں تاکہ وہاں کی مجوزہ اسمبلی اور حکومت میں وہ اقتدار کے مزے لوٹ سکیں۔ اس میں قومی یکجہتی والی سیاست کا قطعاً عمل دخل نہیں جبکہ محمود خان اچکزئی تو مفاد پرستی کی سیاست میں قومی اسمبلی کے فلور پر اعلانیہ افغانستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھی اظہار کرچکے ہیں اور کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز بھی پیش کرچکے ہیں جو درحقیقت بھارت کا ایجنڈا اور مطمح ¿ نظر ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علماءاسلام کا پس منظر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس کے قائدین قیام پاکستان کی اعلانیہ مخالفت کرتے رہے جبکہ قیام پاکستان کے بعد مولانا فضل الرحمان کے والد محترم مفتی محمود نے اعلانیہ اس امر پر اظہار تشکر کیا تھا کہ وہ پاکستان کے قیام کے ”گناہ“ میں شریک نہیں ہوئے۔ اپنے اس ماضی کی بنیاد پر ہی یہ دونوں حکومتی حلیف پاکستان کی جڑیںکبھی مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اسی تناظر میں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی فاٹا کے انضمام کیلئے اب تک حکومت کے اٹھائے گئے ہر اقدام کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور حکومت انکے ہاتھوں بلیک میل ہوکر فاٹا کے انضمام کیلئے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کا بل لانے کا معاملہ مو¿خر کرتی رہی ہے۔ اگر گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اس بل کی مخالفت میں صرف ایک ووٹ پڑا ہے جو تحریک انصاف کے باغی رکن کا ہے تو اس ایشو پر مولانا فضل الرحمان اور محمود خاں اچکزئی کو اپنی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہوجانا چاہیے جبکہ پاراچنار کے عوام نے اس آئینی ترمیم پر بھرپور جشن منا کر ان دونوں سیاسی قائدین کا یہ دعویٰ بھی باطل ثابت کردیا ہے کہ فاٹا کے عوام کے پی کے میں انضمام کے بجائے اپنے الگ صوبے کا قیام چاہتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس ارض وطن کے ساتھ کچھ ایسی جونکیں چمٹی ہوئی ہیں جو یہاں کا کھاتے ہیں اور یہاں سے اپنے اور اپنے خاندانوں کیلئے تمام فائدے سمیٹنے اور اقتدار میں شیرینیاں وصول کرنے کے باوجود پاکستان کیلئے بدخواہی کا سوچتے ہیں اور اسکی سالمیت کے حوالے سے گاہے بگاہے زہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے عناصر کی سوچ کے ڈانڈے درحقیقت پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے درپے بھارت کی سازشوں کے ساتھ ملتے ہیں اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ حکمران جماعتیں بھی محض اپنے اقتدار کے تحفظ اور استحکام کی خاطر ایسے عناصرکے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہیں اور قومی و ملکی مفادات کے منافی انکے رویوں اور طرز عمل کو برداشت کرکے انہیں شریک اقتدار کئے رکھتی ہیں۔ اسی تناظر میں حکومتی حلیف مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کی مخالفت پر ڈٹے رہے ہیں ۔محمود خان اچکزئی تو آج بھی خیبر پی کے کے سرحدی علاقوں کے افغانستان کا حصہ ہونے کے داعی ہیں اور خدانخواستہ پاکستان پر کوئی افتاد ٹوٹنے کی صورت میں اپنے آبائی وطن افغانستان واپس جانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ فاٹا اصلاحات بل کے حوالے سے وہ اسی تھالی میں چھید کرنے پر تلے بیٹھے رہے جس میں سے وہ پیٹ بھر کر کھاتے رہے ہیں۔
جب مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی نے فاٹا اصلاحات بل کی منظوری دی اور اسکے تحت فاٹا کے خیبر پی کے میں مرحلہ وار انضمام کا فیصلہ ہوگیا تو حکومت کیلئے اس فیصلہ پر عملدرآمد کی راہ میں کوئی مجبوری لاحق نہیں ہونی چاہئیے تھی۔ پھر بھی حکومت مفاد پرست سیاست دانوں کے دباﺅ میں آگئی اور انہیں فاٹا اصلاحات کا طے شدہ معاملہ دوبارہ کھلونے کا موقع فراہم کردیا۔ اس وقت چونکہ حکمران مسلم لیگ (ن) دوسرے مختلف ایشو پربھی سخت دباﺅ میں رہی ہے اس لئے مولانا فضل الرحمان اور اچکزئی کو فاٹا بل پر اسے بلیک میل کرنے کا موقع ملتا رہا۔ اب 31ویں آئینی ترمیم کی شکل میں اس بل کی منظوری سے جہاں فاٹا کے عوام کا دیرینہ مطالبہ منظور ہوا ہے‘ وہیں کے پی کے کے ایک مستحکم صوبے کے قالب میں ڈھل کر وفاق کی ایک مضبوط اکائی بننے کا امکان بھی روشن ہوگیا ہے۔ اپنی آئینی میعاد مکمل کرنیوالی قومی اسمبلی کی جانب سے کی گئی یہ آخری آئینی ترمیم بلاشبہ اس کا بڑا کارنامہ ہے جس پر پوری پارلیمان مبارکباد کی مستحق ہے۔