تحریک انصاف کے ایک خاصے معروف سیاسی رہنما نے مجھے کہا کہ بڑی بے انصافی ہو رہی ہے۔ عمران خان نے چودھری سرور کو کیوں نہیں نکالا۔ سب سے زیادہ پیسے ان کے پاس ہیں۔ وہ مسلم لیگ ن کے گورنر پنجاب رہے ہیں۔ میری ملاقات بھی ان سے گورنر ہاﺅس میں ہوئی۔ میں گورنر ہاﺅس میں برادرم مشہود شورش سے ملاقات کے لیے جاتا تھا تو چودھری سرور سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ بڑے خوش اور مطمئن دکھائی دیتے تھے۔
انگلستان میں میاں برادران کے میزبان ہوتے تھے۔ شریف برادران خصوصاً نواز شریف کسی احسان یا مہربانی کا بدلہ ضرور دیتے ہیں۔ چودھری صاحب نے سمجھا کہ گورنر پنجاب کوئی بڑی شے ہوتا ہو گا۔ انہوں نے یہاں رہ کر دیکھ لیا۔ مزا نہیں آیا۔ اس بڑی شاندار بلڈنگ کے چاروں طرف سڑکیں ہیں۔ اس کے دو دروازے ہیں۔ چار دروازے ہوتے تو اچھا ہوتا۔
یہاں شاہ محمود قریشی کے والد صاحب بھی کچھ عرصہ رہے۔ ان کے پاس جو بھی کوئی کام لے کے پہنچتا تو وہ بڑی محبت سے کہتے کہ اللہ کریسی تیرا کام ہو ویسی۔ ایک آدمی جب اپنا کام کروانے میں ناکام ہوا تو اس نے بڑی مایوسی سے کہا کہ پہلے ہم بیورو کریسی سے بڑے تنگ تھے۔ اب ہمیں اللہ کریسی کا سامنا ہے۔
شاہ محمود قریشی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ میرے خیال میں انہیں والد کی اس گدی پر بھی بیٹھنا چاہیے۔ معلوم نہیں کہ جہانگیر ترین کے ساتھ ان کا جھگڑا کس بات پر ہوا۔ زیادہ بہتر ہے کہ قریشی صاحب جنوبی پنجاب کو صوبہ بنوائیں اور مسلم لیگ ن کی حکومت میں بنوائیں۔ عمران خان نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ ورنہ اگر تحریک انصاف کی حکومت میں یہ بنا تو کہا جائے گا کہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعلیٰ بننے کے لیے یہ صوبہ بنوایا ہے۔ قریشی صاحب کا تعلق ملتان سے ہے۔ جہانگیر ترین کا ملتان کے پاس ضلع لودھراں سے تعلق ہے۔ جاوید ہاشمی ملتان کے پاس ایک گاﺅں میں ہیں۔ اس گاﺅں کا نام غالباً ”مخدوم رشید“ ہے۔ میں وہاں صدر رفیق تارڑ کے ساتھ جا چکا ہوں۔
جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رہے۔ ہم ان کے ساتھ تھے۔ تب وہ ایک بہادر آدمی تھے۔ ان کے ساتھ دوستی بہت پرانی ہے۔
مگر مجھے سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں کیوں گئے اور پھر تحریک انصاف چھوڑ کر دوبارہ ن لیگ کا رخ کیا ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی ملتان کے کسی اہم آدمی کو برداشت نہیں کریں گے۔ جہانگیر ترین سے جھگڑے کے پیچھے بھی یہی بات نہ ہو؟
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یا عباسی صاحب کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ووٹ کی عزت کرو۔ وہ اس کے ساتھ یہ بھی اضافہ کر لیں کہ ووٹر کو بھی عزت دو۔ یہ تو یقیناً شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سیاستدان کی بھی عزت کرنا چاہیے۔ ہم لوگ ججوں اور جرنیلوں کی عزت کرتے ہیں۔ مگر سیاستدان کو اس قابل نہیں سمجھتے۔
میری ان سے گزارش ہے کہ سیاستدان خود کو عزت کے قابل تو بنائیں۔ کیا ہم لوٹوں کی عزت کریں۔ ہر سیاستدان دوسرے سیاستدان کو کرپٹ کہتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سب کرپٹ ہیں۔ قائداعظم، قائد ملت، مولوی تمیزالدین کے علاوہ دو چار اچھے سیاستدانوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ جرنیل بھی جب سیاستدان بنتے ہیں تو سیاستدان جیسے بن جاتے ہیں۔ بلکہ سیاستدان بن جاتے ہیں۔ وہ بھی جھوٹ بدعنوانی اور کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ کسی سیاستدان نے پاکستان کے لیے پاکستان کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہر کام روٹین میں ہوتا رہا ہے۔ جھوٹ بدعنوانی اور کرپشن بھی روٹین بن گئی ہے۔
آخر میں ایک دلچسپ مگر خطرناک خبر یہ کہ تحریک انصاف کے نعیم الحق اور وفاقی وزیر دانیال عزیز کے درمیان نہ جانے کیا ہوا کہ نعیم الحق نے دانیال عزیز کو تھپڑ دے مارا جس کی آواز اخبارات میں بھی گونجی۔ حیرت ہے کہ دانیال عزیز تھپڑ کھا کے خاموش رہے۔ دانیال عزیز کا یہ رویہ کیا ہے؟ ان کی جگہ نہال ہاشمی ہوتے یا طلال چودھری ہوتے تو کیا پھر بھی یہی صورت حال ہوتی۔ حکومتی پارٹی کے اہم لوگ کچھ سوچ کر ہی یہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔
سیاستدانوں کے اس مظاہرے کے بعد عام لوگ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے لیے اگلے کالم میں اظہار خیال کروں گا۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024