اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا تمام دنیا کے ذی روح تغیر پذیر اور فانی ہیں دنیا میں پیدا ہونے والے اربوں انسانوں کا دماغ اور سوچنے کا پیمانہ مختلف ہے اور ہاتھوں کی لکیریں بھی مختلف ہیں لیکن کچھ شخصیات ایسی دنیا میں آئی ہیں جو اپنی انتھک محنت، عاجزی، کردار اور علمی صلاحیتوں کی بناء پر ناقابل یقین تمام مقام حاصل کر چکی ہیں اور دنیا سے رخصتی کے بعد بھی انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہیں جن کا خیال دماغ سے جھٹکنے کی کوشش بھی کریں لیکن ان کی یاد اپنے سایہ کی طرح ہر وقت ساتھ چمٹی رہتی ہیں اور پیچھا نہیں چھوڑتی ان میں سے ہی ایسی شخصیت جن کا ذکر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔گلزار بانو (مرحومہ) اگرچہ کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن ان کی ذات کو مشعل راہ بنانے میں کوئی حرج نہیں گلزار بانو کے بارے میں معلوم تو تھا کہ پاکستان کی پہلی CSP اور وفاقی سیکرٹری رہی ہیں اور ان کی چھوٹی بہن رضیہ بانو پاکستانی کی پہلی خاتون کمشنر انکم ٹیکس تھیں ان کی یاد میں گلزار کتب کے زیر اہتمام سالانہ برسی کے موقع پر بیاد گلزار بانو کی محفل سجائی گئی گلزار بانو سے محبت رکھنے والی عظیم شخصیات نے شرکت کی جن میں بیگم ثریا انور، یاسمین طاہر، رفیعہ حسن، ڈاکٹر اعجاز انور اور مسز ڈاکٹر امتیاز نمایاں تھیں ڈاکٹر فویز احمد احسن اور ملک کی مشہور ڈیزائنر عمارہ خاں نے ان کی زندگی کے چھپے ہوئے اصول اور کردار پر روشنی ڈالی اگرچہ وہ ایک بیوروکریٹ تھیں بلکہ اندر سے بڑی نرم دل غریب پرور اور ادب اور شاعری سے لبریز خاتون تھیں جب بتایا گیا کہ بطور ریلوے ایگزیکٹو معائنہ جات کیلئے ان کو AC سیلون ملا ہوا تھا اپنے بہن بھائیوں سے بے پناہ شفقت اور محبت کے باوجود کسی کو اس میں سفر تو درکنار اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی افسوس کہ آج کل کے حکمرانوں کے خانسامے سرکاری گاڑیوں پر گھرمتے پھرتے نظر آتے ہیں گلزار بانو کی زندگی کا تعلیمی سفر لکھنؤ سے شروع ہوا کینئرڈ کالج، گورنمنٹ کالج اور ہاورڈ یونیورسٹی تک گیا یہ کسی کو علم نہ تھا کہ یہ خاتون اس ملک کا اثاثہ ثابت ہو گی اور آنے والی بچیوں کیلئے ایک رول ماڈل اور مشعل راہ ثابت ہوگی گلزار بانو نہ صرف ایک آفیسر بلکہ ایک شاعرہ اور ادیب بھی تھیں ان کی شاعری کی گہرائی سمندر سے زیادہ گہری اور ان کی شاعری اور تحریروں میں انسانیت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام اثاثہ جات گلزار کتب کے نام کر دیئے تھے اور اپنی ہونہار اور درد دل رکھنے والی بہن ڈاکٹر فوزیہ احمد کو اس کا کسٹوڈین مقرر کر دیا تھا جو ان کے مشن کو احسن طریقہ سے سرانجام دے رہی ہیں وہ روزانہ خود غریب نادار اور بے سہارا طلبہ کو پڑھاتی ہیں اور ان کی ضروریات زندگی کا خیال رکھتی ہیں ڈاکٹر فوزیہ احمد کی گفتگو سننے کے بعد ان میں اپنی بہن کا عکس نظر آتا ہے جب وہ اپنی بہن کے ساتھ گزارے لمحات کا ذکر کرتی ہیں تو وہ جذباتی ہو جاتی ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو کی بارش شروع ہو جاتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا کہ اس ملک میں ایسی باکردار اور اس سسٹم کا مقابلہ کرنے والی شخصیات نایاب ہیں یا ان کو پھلنے پھولنے کے موقعے فراہم نہیں کئے جا رہے یا ان کے راستہ میں ایک کرپٹ سسٹم دیوار بنا ہوا ہے امید ہے کہ یہ جمود ختم ہوگا اور ملک کی خیر خواہ شخصیات کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور گلزار بانو جیسی خواتین اس ملک میں پیدا ہوں گی اور معاشرہ میں پسی ہوئی خواتین کو اپنے حقوق دلائیں گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024