مرتد خاتون کیلئے قتل کی سزا نہیں، تشدد مرد کرسکتا ہے نہ عورت، اسلامی نظریہ کونسل میں حقوق نسواں بل پر غور جاری
اسلامی نظریہ کونسل کے اجلاس میں تحفظ حقوق نسواں کا مجوزہ بل پیش کر دیا گیا۔ اسلام آباد میں اسلامی نظریہ کونسل کے تین روزہ اجلاس کا دوسرا دور چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں تحفظ حقوق نسواں کے حوالے سے 163 دفعات پر مشتمل بل کا مسودہ پیش کیا گیا۔ مولانا محمد خان شیرانی کے مطابق اس بل کی تیاری میں کونسل کے رکن مفتی امداد اللہ نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا یہ بل تاحال مکمل نہیں اور آئندہ اجلاس میں اس پر مزید غور کیا جائے گا۔ تحفظ حقوق نسواں بل میں بیوی کو ہلکی پھلکی مار پیٹ کی اجازت، مخلوط تعلیم، خاتون نرسوں کی جانب سے مرد مریضوں کی تیمارداری اور فحش اشتہارات میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی کی تجاویز کے علاوہ خواتین کے جائیداد کے حق، مذہب کی تبدیلی اور شادی سے متعلق قوانین کی بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ مجوزہ بل کے اہم نکات میں شامل ہے شوہر سمجھانے بجھانے کے لیے ضرورت کے مطابق اپنی بیوی کو ’ہلکا پھلکا‘ مار پیٹ سکتا ہے۔ شوہر کی طرف سے زیادہ مار پیٹ کی صورت میں بیوی عدالتی کارروائی کے لیے رجوع کر سکتی ہے۔ عاقل اور بالغ خاتون کو نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ بیوی کو نان نفقہ نہیں ملتا تو اس کو خلع کا حق حاصل ہو گا۔ ونی یا تنازعے کے حل کے لیے شادی قابل تعزیر جرم ہو گا۔ قرآن سے خاتون کی شادی قابل سزا جرم ہو گا جس میں دس سال قید سزا ہو گی۔ جہیز کے مطالبے اور نمائش پر پابندی ہو گی۔ خواتین کو سیاست میں شمولیت کی اجازت ہو گی۔ خواتین جنگی کارروائیوں میں شمولیت کی ذمہ دار نہیں۔ جنگ میں خواتین کو قتل کرنا ممنوع ہے۔ خواتین جج بن سکتی ہیں۔ خواتین کو غیرملکی حکام اور ریاست کے مہمانوں کے استقبال کی اجازت نہیں ہو گی۔ کسی خاتون کے زبردستی مذہب کی تبدیلی پر تین سال قید کی سزا ہو گی۔ مذہب اسلام چھوڑنے پر کسی خاتون کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ تیزاب گردی یا خواتین کے خلاف پرتشدد اقدامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ پرائمری سطح کے بعد مخلوط تعلیم پر پابندی ہو گی۔ پرائمری سطح کے بعد مخلوط تعلیم کی صرف اسی صورت میں اجازت ہو گی اگر حجاب کو لازمی قرار دیا جائے اور مرد و خواتین کے میل جول کی اجازت نہ ہو۔ مائیں کم از کم دو سال تک بچوں کو اپنا دودھ پلائیں۔ ماں کے دودھ کے متبال خوراک کے اشتہاروں پر پابندی ہو گی۔ شوہر کی اجازت کے بغیر خواتین مانع حمل اشیا استعمال نہیں کر سکتیں۔ 120 دن کے حمل کے بعد حمل گرانا قتل تصور کیا جائے گا۔ اجلاس کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مولانا محمد شیرانی نے کہا تادیب کے حوالے سے مختلف مرحلے ہیں۔ پہلا شوہر بیوی کوسمجھائے، نہ مانے تو ایک ہی بستر پر سوتے ہوئے بیوی سے منہ موڑ لے۔ پھر بھی بیوی نہ مانے تو بستر علیحدہ کر لے۔ اس سوال پرکہ بیوی پھر بھی نہ مانے توکیا تشدد کی اجازت ہے تو مولانا شیرانی نے کہا بیوی پھر بھی نہ مانے تو تب بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی مرد بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھاتا یہ سب مغرب کا پروپیگنڈا ہے قبائلی علاقوں میں تو عورت باہر آئے تو جنگ روک دی جاتی ہے۔ آئی این پی کے مطابق مولانا محمد خان شیرانی نے اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے کہا مذہب اسلام میں تشدد نہ مرد کرسکتا ہے اور نہ ہی عورت۔ ریاست کی ذمہ داری ہے وہ مرد اور خواتین کیلئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کرے، ہر خاتون کو مذہبی آزادی حاصل ہے شوہر اس کی آزادی کو سلب نہیں کرسکتا، مولانا محمد خان شیرانی نے کہا پارلیمنٹ کوئی قانون وضع کرے تو انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اس پر عملدرآمد کرائے،خیبر پی کے کی حکومت نے تحفظ حقوق نسواں بل اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل اسلامی نظریہ کونسل کو بھجوایا مگر پنجاب حکومت نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اور آئینی تقاضے پورے کیئے بغیر بل اسمبلی سے منظور کرایا، یہ صریحاً آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، جس کو اسلامی نظریہ کونسل نے مسترد کیا اور آئین کی روح سے کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے وہ اسلام اور آئین پاکستان سے متصادم قوانین کو چیلنج کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کوئی بھی خاتون مرتد ہوجائے تواس کیلئے قتل کی سزا نہیں مرد مرتد ہوجائے تو تین دن کے اندر وہ رجوع نہ کرے تو واجب القتل ہے۔ خاتون جتنی بھی مالدار ہو اس کی تمام معاشی ذمہ داریاں اس کے شوہر پر عائد ہوتی ہیں اور وہ شریعت کے مطابق کاروبار میں بھی حصہ لے سکتی ہے۔ مولانا شیرانی نے کہاکہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے بل کونسل کو بھیجا اس حوالے سے بھی کونسل نے بل کی تشکیل مکمل کرلی ہے اور آئندہ اجلاس میں اس پر بھی غور ہوگا۔ مولانا شیرانی نے کہا دفاعی معاملات میں خواتین حصہ نہیں لے سکتیں مگر اپنے دفاع کیلئے وہ تربیت حاصل کرسکتی ہیں، معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے خاتون کسی بھی معاشی مشغلے کو اختیار کرسکتی ہے، مگر وہ شریعت سے متصادم نہ ہو۔ کوئی بھی خاتون کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو اپنے مذہبی معاملات میں وہ آزاد ہے اور شوہر اس پر کسی بھی قسم کا جبر نہیں کرسکتا،انہوں نے کہا کہ کونسل نے قرآن پاک کے عثمانی رسم الخط پر مکمل اتفاق کیا ہے،قرآن پاک کی صحیح انداز میں طباعت کیلئے بھی سفارشات مرتب کی ہیں۔کونسل نے اتفاق کیا ہے کہ رسم الخط امردانی ہوگا کیونکہ برصغیر میں یہ ہی رسم الخط مروج ہے،ابن نجاح رسم الخط خالصتاً عربیوں کیلئے ہے۔ شوہر کو توحید کی اجازت ہے تو پھر خاتون کو بھی غیر شرعی فعل پر تنقید کا حق حاصل ہے۔ این این آئی کے مطابق چند اہم دفعات کے مطابق اسلام یا کوئی اور مذہب چھوڑنے پر عورت قتل نہیں کی جائےگی ¾باشعور لڑکی کو قبول اسلام کاحق حاصل ہوگا ¾عورت کے زبردستی تبدیلی مذہب کرانے پر 3 سال سزا ہوگی ¾ ¾غیر ملکی مہمانوں کے استقبال میں عورتیں شامل نہیں ہوں گی ¾ عورت سے زبردستی مشقت لینے پر مکمل پابندی عائد ہوگی ¾تیزاب گردی یا کسی حادثے سے عورت کی موت کی مکمل تحقیقات ہوں گی ¾ عورت کو شریعت کے فراہم کردہ تمام حقوق حاصل ہوں گے ¾ مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکوئی بھی خاتون خواہ کسی بھی مذہب کی پیروکار ہو اسے اپنی مذہبی عبادات کرنے کی بھی مکمل آزادی حاصل ہے۔