تنخواہ‘ پنشن میں پچاس فیصد اضافہ کیا جائے : اپوزیشن ارکان تاجر مزدور رہنما‘ بجٹ غریب دوست ہو گا : وزیر خزانہ پنجاب
لاہور (سیف اللہ سپرا) نوائے وقت گروپ کے زیراہتمام مالی سال 2016-17ء کے بجٹ کے حوالے سے ایوان وقت میں منعقدہ نشست میں اپوزیشن ارکان اسمبلی، تاجر اور مزدور رہنماؤں نے زرعی مداخل، کھاد، بیج، کرم کش ادویات کی قیمتوں میں کمی، زرعی آلات پر سبسڈی، بھارت سے سبزیوں کی درآمد پر مکمل پابندی، تنخواہوں اور پنشن میں 50 فیصد اضافہ، کسانوں کے لئے سستی بجلی کی فراہمی، تاجروں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے اور ون ونڈو ٹیکس کا نظام رائج کرنے، سپلیمنٹری بجٹ کی روایت کو ختم کرنے، صوبہ میں امن و امان کی حالت کو بہتر بنانے، صحت اور تعلیم کی ہر سہولتوں کی فراہمی، ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنانے اور کرپشن کے خاتمہ کا مطالبہ کیا ہے جبکہ صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ آئندہ بجٹ غریب اور چھوٹے کسان کا بجٹ ہو گا۔ بجٹ غریب دوست ہو گا۔ تعلیم، صحت، انرجی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی لیپ ٹاپ سکیم جاری رکھنے، تنخواہوں اور پنشن میں معقول اضافہ کیا جائے گا۔ کسانوں کیلئے سبسڈی رکھی گئی ہے۔ پرائمری سطح پر صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ایکسائز اور دیگر شعبوں سے کرپشن ختم کی جائے گی۔ نوائے وقت فورم کے شرکاء میں وزیر خزانہ حکومت پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، قائد حزب اختلاف اور مرکزی رہنما تحریک انصاف محمود الرشید، پارلیمانی سیکرٹری جماعت اسلامی پنجاب اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر، آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر محمد اشرف بھٹی، آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے جنرل سیکرٹری خورشید احمد تھے۔ نظامت انچارج ایوان وقت سیف اللہ سپرا نے کی۔ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے آمدہ بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ غریب دوست بجٹ ہو گا اور ایسا بجٹ ہو گا جس میں مزدوروں، کسانوں اور کم آمدنی والے لوگوں کے مفاد کو یقینی بنایا جائے گا۔ مالی سال 2015-16ء کے دوران حکومت پنجاب کی کارکردگی وفاقی حکومت اور باقی تینوں صوبائی حکومتوں کی نسبت بہتر رہی ہے۔ جسے سراہا جانا ضروری ہے۔ پچھلے مالی سال میں تعلیم اور صحت کے شعبوں پر زیادہ فوکس کیا گیا اور 40 فیصد سے زیادہ بجٹ ہیلتھ اور ایجوکیشن کے شعبوں کے لئے مختص کیا گیا۔ اس طرح مالی سال 2016-17ء کے دوران بھی تعلیم اور صحت پر زیادہ فوکس کیا جائے گا۔ اس بجٹ میں انرجی کے لئے زیادہ انحصار قدرتی گیس، ونڈ انرجی اور سولر انرجی پر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئلے سے بھی بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے کلین کول ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ آمدہ بجٹ میں زراعت پر بہت زیادہ فوکس کیا جا رہا ہے۔ آئندہ بجٹ میں 100 بلین ایکسٹرا ڈویلپمنٹ اور سبسڈی کے لئے رکھے گئے ہیں۔ جن میں زیادہ رقم کسانوں کے لیے سبسڈی پر ہی خرچ ہو گی۔ اور یہ رقم دو سال میں خرچ کی جائے گی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کا کسان پیکیج ہے۔ کھاد کو سبسڈائز کیا گیا ہے جس سے کسان کو بہت فائدہ رہیگا۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ ہیلتھ کے شعبہ میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر تحصیل ہیڈ کوارٹر اور پرائمری ہیلتھ یونٹس پر ڈاکٹروں اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جنوبی پنجاب کے لئے بھی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ لیپ ٹاپ سکیم جاری رہے گی۔ میاں محمود الرشید نے آمدہ بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی ترجیحات کو تبدیل کرنا چاہیے۔ صرف ٹرانسپورٹ، پلوں، سڑکوں پر اربوں روپیہ خرچ کرنے کی بجائے تعلیم، صحت اور لوگوں کے جان و مال کا تحفظ و انصاف کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں پہلے نمبر ہونی چاہئیں۔ حکومت سپلیمنٹری بجٹ کی ایک غلط روایت کو ختم کرے۔ انتہائی ضروری اخراجات کو اسمبلی سے ریگولرائز کروائے۔ نئے ٹیکسز لگانے کی بجائے حکومت کرپشن کے خاتمے اور ٹیکس کولیکشن کا نظام بہتر بنائے۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر وسیم اختر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرآن اور آئین پاکستان کے مطابق حکومت پنجاب کو اپنے تمام مالی معاملات کو غیر سودی کرنا چاہیے۔ اس وقت پنجاب کی آبادی دس کروڑ سے متجاوز ہے۔ اسی تناسب سے تین کروڑ کے قریب نوجوان ہیں جن کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ بھی ہے لیکن بے روزگار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے والی سرگرمیاں خصوصی طور پر پلان کی جائیں۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ کسانوں کو زرعی مقاصد کے لئے زرعی ٹیوب ویل پر بجلی کے بلوں میں 50 فیصد رعایت دی جائے تمام زرعی مداخل کھاد، بیج، کرم کش ادویات سستے داموں فراہم کئے جائیں اور تمام زرعی آلات پر سبسڈی دی جائے۔ پنجاب میں کئی طرح کے نظام ہائے تعلیم مروج ہیں۔ امیر کا بچہ کوئی اور نصاب پڑھتا ہے اور غریب کا بچہ کوئی اور نصاب، نصاب تعلیم کو ایک ہی رکھا جائے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پنشن میں پچاس فیصد اضافہ کیا جائے۔ محمد اشرف بھٹی نے کہا کہ پنجاب حکومت کے تاجروں پر تو ٹیکسوں کی بھرمار کی ہوئی ہے جس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک ہی بازار میں ایک دکاندار سے پروفیشنل ٹیکس، لائسنس فیس، انکم ٹیکس، صفائی ٹیکس سمیت متعدد ٹیکس لئے جاتے ہیں حالانکہ پروفیشنل اور لائسنس فیس ایک ہی چیز ہے دونوں کا تعلق پروفیشن سے ہے اور دو ادارے وصول کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پراپرٹی ٹیکس میں حکومت پنجاب نے بہت اضافہ کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ون ونڈو ٹیکس کا نظام ہو تاکہ تاجروں کو ٹیکس کی ادائیگی میں آسانی ہو اور تمام ٹیکس وقت پر دے سکیں۔ تجاوزات کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ خورشید احمد نے آمدہ بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی 20 کروڑ عوام کو موجود دور میں گوناگوں چیلنجز درپیش ہیں بڑھتی ہوئی غربت نوجوانوں کی عام بے روزگاری، سماج میں غریب اور امیر میں فرق میں دن بدن اضافہ اور ملکی اشرافیہ کی عیش و عشرت اور حکمرانوں سے لے کر ارکان اسمبلی تک، اور پھر جاگیردار اور سرمایہ دار اور بڑے بڑے تاجر قانون کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ 80 فیصد ٹیکس ادا کرنے والا تنخواہ دار طبقہ ہے۔ نئے بجٹ میں حکومت کو ان طبقات سے ٹیکس وصول کرنے چاہئیں۔ ملک کی صنعت اور زراعت کو ترقی دی جائے اور ہر سال 18 لاکھ نوجوان جو لیبر مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں ان کو بامقصد روزگار فراہم کیا جائے۔ حکومت اور مرکزی وزیر خزانہ اور صوبائی وزیر خزانہ کو آئندہ بجٹ میں کم از کم تنخواہ اور الاؤنسز میں پچاس فیصد اضافہ کرنا چاہیے۔ بڑھاپے کی پنشن (اولڈ ایج بینیفٹ) کم از کم 15 ہزار روپے مقرر کرنی چاہیے۔
وزیر خزانہ پنجاب