یہ صحتمند صحافت اور اسکے ضابطہ اخلاق کی بھی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں کہ لکھنے والا چاہتے ہوئے بھی اپنے کچھ ایسے دوستوں کی شناخت ظاہر کرنے سے صرف اس لئے معذور ہوتا ہے کہ انکے نام کے ساتھ جْڑے عہدے یا رتبے اس سلسلہ میں بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ کچھ اس قسم کا معاملہ آج راقم کو بھی درپیش ہے جب وہ کسی ایسے شخص کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہے جس سے اس خاکسار کی یاد اللہ کا سلسلہ ایک عرصہ سے چل رہا ہے لیکن وہ اسکا نام لکھ نہیں سکتا۔ جس شخص کی بات کرنے چلا ہوں اس میں اور بہت سی خوبیوں کے علاوہ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسے جب بھی فون کال کریں وہ آپکی کال ضرور اٹینڈ کریگا اور اگر وہ موقع کی نزاکت کی وجہ سے آپکی کال کا جواب نہیں دے سکتا تو وہ اپنی پہلی فرصت میں آپکو کال بیک ضرور کریگا۔ گو کہ اسطرح کی خوبی آجکل کے مادی دور میں بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن پھر بھی اس اعلی روایت کے آمین لوگوں کا آج بھی قحط الرجال نہیں پڑا اور راقم کو اپنے جاننے والوں میں اس دوست کے علاوہ کچھ اور دوستوں کا نام لینا پڑیں تو وہ اس سباق ایک اور صاحب چوہدری محمود سلیم، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، کا نام ضرور لے گا جسکے ظرف اور اعلی روایات کی پاسداری پر لوگ اسکے جانے کے بعد آج بھی اسکے متعرف دکھائی دیتے ہیں۔ چند روز پہلے کی بات ہے راقم کی اپنے اس دوست سے، جسکی شناخت ظاہر نہیں کر رہا، بات ہو رہی تھی اور کسی حوالے سے ایک شخص کا ذکر آ گیا جس پر موصوف نے کہا کہ رمضان کے اس مہینے میں کسی کے کردار پر کیا گفتگو کرنی، بس اتنا کہہ سکتا ہوں ‘‘ رب دیاں بے پرواہیاں تے کھوتے کھان ملائیاں’’۔
گو کہ اپنے اس دوست کا بیک گراونڈ انجینرنگ کے شعبہ سے ہے لیکن نجی محفلوں میں بیٹھے یہ صاحب لطیف پیرائے میں ایسی ایسی بات کر جاتے ہیں کہ لگتا ہے اس بندے میں مشتاق یوسفی کی روح امڈ آئی ہے۔ ایک دن دوران محفل اس موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ جیسے ہر خطے ، ہر علاقے کا اپنا مزاج ہوتا ہے اپنی روایات ہوتی ہیں اسی طرح ناموں کے حوالے سے بھی ہر علاقے کی اپنی اپنی انفرادیت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے موصوف فرمانے لگے کہ صوبہ پنجاب کا ایک مخصوص علاقہ ہے آپ وہاں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں کے اکثر لوگوں کے نام اللہ بخش، محمد بخش، خدا بخش، خیر بخش ، الٰہی بخش وغیرہ ملیں گے لیکن جب آپ انکے کام دیکھیں گے تو کسی کا کام بھی تسلی بخش نہیں ہو گا۔
لطیف پیرائیوں اور محاورتاً کہی باتیں بظاہر بڑی معمولی لگتی ہیں لیکن کبھی کبھار موقع کی مناسبت یہ اتنی فٹ بیٹھتی ہیں اور ان میں اتنی سچائی نظر آتی ہے کہ لگتا ہے یہ محاورہ کہا ہی اسی مناسبت سے گیا ہے۔
اس وقت جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو ٹی وی پر یہ خبر دیکھنے اور سْننے کو مل رہی ہے کہ وفاقی کابینہ نے آج ایک ایسے بل کی منظوری دی ہے جس کے تحت وفاقی وزراء کی تنخواہوں اور الاؤنسوں میں 144 فیصد جبکہ وزراء مملکت اور وزریراعظم کے مشیروں کی تنخواہوں میں اضافہ 188 فیصد کے لگ بھگ کیا گیا ہے اور اس اضافہ کی منظوری کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ اس کی منظوری کیلیئے کابینہ کے باقاعدہ اجلاس کا انتظار نہیں کیا گیا بلکہ اسکی منظوری سمری سرکولیشن کے ذریعے حاصل کی گئی۔ اس سے پہلے اس قسم کا اضافہ اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کی تنخواہوں اور دوسری مراعات میں بھی دیکھنے کو مل چکا ہے۔ حیران کن بات یہ نہیں کہ ان ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں یکمشت اتنا بڑا اضافہ کیوں ! حیرانی تو صرف اس بات پر ہے کہ یہ اضافہ ان لوگوں کیلئے ہوا ہے جنکی کارکردگی پر سوالیہ نشان تو الگ بات جو ایوان میں اپنی اس حاضری کو بھی یقینی نہیں بناتے جسکی وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ یہ تو وہ حقیقت ہے جو آپکی آنکھوں کے سامنے ہے۔ پاکستان کے ایوان بالا جسے سینٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے اسکے ارکان کے بارے ایسے حقائق موجود ہیں کہ جب انکی تفصیلات پر ایک نظر پڑتی ہے تو عام شہری کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ سینٹ کے جتنے ارکان ہیں اتنی ہی اس ایوان کی سٹنڈنگ کمیٹیاں ہیں جن میں ہر کمیٹی کا ایک چیرمین ہے جسے اپنی اس تنخواہ اور مراعات جو کہ بطور رکن سینٹ اسکا بنیادی استحقاق ہے کے علاوہ جو مراعات ملتی ہیں وہ مغلیہ دور کی شاہ خرچیوں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔ ویسے تو اس قسم کے حالات ہر سرکاری محکمے میں دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں کسی زمانے میں ریلوے ورکشاپ اور محکمہ تعلیم کا بڑا چرچا سْننے کو ملتا تھا کہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایسے ملازمین پائے جاتے ہیں جو بنا حاضری پورے پورے مہینے کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ ثبوت چاہیئے تو جمعرات کو ہونے والے اسمبلی اجلاس کی کارروائی دیکھ لیں جب ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کو، جو اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، اجلاس صرف اس وجہ سے ملتوی کرنا پڑا کہ اس اجلاس میں ایک بھی متعلقہ حکومتی وزیر ایوان میں موجود نہیں تھا جو اسمبلی میں پوچھے گئے سوالوں کا جواب دے سکتا۔ جبکہ دوسری طرف اسی ایوان میں دو تین روز پہلے خزانہ کے متعلقہ وزیر کا ایک بیان شہ سرخی بنا کہ آئندہ آنے والے بجٹ میں ابتک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ جو کہ عموما دس سے پندرہ فیصد تک سالانہ ہوتا ہے کی کوئی ایسی تجویز زیر غور نہیں۔
بات پھر وہی کہ نام بیشک محمد بخش خدا بخش اللہ بخش الٰہی بخش یا خیر بخش ہو مگر جب تک کام تسلی بخش نہیں ہو گا تو پھر زندہ حقائق کی بناد پر اگر کوئی ناقد اس محاورہ ‘‘ رب دیاں بے پرواہیاں تے کھوتے کھان ملائیاں ‘‘ کا استعمال کر کے صاحب اختیار لوگوں کو تنقید کی زد میں لائے تو کیا آپ اس پر پیکا ایکٹ لگائینگے یا پھر زندہ حقیقت سمجھ کر کہیں گے کہ لگے رہو منا بھائی اپن کا کیا جاتا ہے۔
’’ربّ دِیاں بے پَرواہیاں‘‘
Mar 26, 2025