تنویر حسین
علامہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق نظم جواب شکوہ میں کہا تھا'' رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بِلالی نہ رہی''اسلام صرف چند رسومات کا مذہب نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام نے ہمیں حقوق و فراض کا ایک مکمل نظام دیا ہے۔ روز مرہ کی عبادات انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہم ان عبادات کو صرف ایک رسم سمجھ کر نبھاتے ہیں جبکہ ہماری زندگی میں اس کے اثرات نظر نہیں آتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ اسلام کی روح کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ نماز ہمیں اجتماعیت کا درس دیتی ہے۔ یہ انسان کو وقت کی پابندی اور ڈسپلن سکھاتی ہے۔ مسجد جانے سے ایک دوسرے حالات اور مسائل سے آگاہی ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک روزہ دار بھوک پیاس برداشت کرتا ہے تو اسے ان غربیوں کی تکالیف کا اندازہ ہوتا ہے جو ان نعمتوں سے محروم ہیں۔ سادہ الفاظ میں عبادت ایک تربیت ہوتی ہے کہ آپ نے عملی زندگی کیسی گزارنی ہے۔ تربیت تو ہو رہی ہے مگر اس تربیت کا اثر معاشرے میں نظر نہیں آتا۔ ذرا سوچئے جب شخص لاکھوں روپے خرچ کرکے میڈیکل یا انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرتا ہے لیکن پروفیشنل لائف میں وہ اپنے کام کو سرانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کی تعلیم وتربیت میں ہی کوئی کمی رہ گئی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ہماری زندگی میں اسلامی تعلیمات کا اثر نظر نہیں آ رہا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہماری عبادت روح سے خالی ہیں بلکہ یہ صرف ایک رسم کی صورت میں ادا ہو رہی ہیں۔ اسلام نے ہمیں خوش خلقی کا درس دیا ہے۔ ایمانداری اور دیانتداری سکھائی ہے، سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا سکھایا ہے۔ قربانی اور ایثار کا درس دیا ہے لیکن یہ چیزیں ہمارے معاشرے سے غائب ہیں۔ معاشرے میں بے ایمانی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کسیپر اعتماد کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ رمضان کے مہینے میں سب سے زیادہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافغ خوری ہوتی ہے۔ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کا حق غصب کر کے سٹال لگے ہیں۔ جعلسازی اور فراڈ نے کتنے لوگوں کی زندگیاں برباد کر دیں۔ بچے اغوا ہوتے ہیں، بچیوں کی عزت محفوظ نہیں، شہروں میں دن دہاڑے ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔ تعلیمی ادارے اور ہسپتال تجارت بن چکے۔ سرکاری اداروں کی مراعات خطے میں سب سے زیادہ ہیں لیکن شہریوں کو انصاف نہیں ملتا۔ مارکیٹ میں ایک نمبر چیز ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گاڑی ٹھیک کروانا ہو یا مکان کی تعمیر ایماندار بندہ بہت مشکل سے ملتا ہے۔ اس کوتاہی کی ذمہ داری عوام کے ساتھ ساتھ علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔ لوگوں کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ رزق حلال کیا چیز ہے۔ ایمانداری سے تجارت کیسے کریں۔ ذخیرہ اندوزی ملاوٹ کے بارے میں کیا احکامات ہیں۔ جس کام کی تنخواہ ملتی ہے وہ ایمانداری سے کریں۔ ناجائز کمائی کتنا بڑا گناہ ہے۔ قرآن نے سب سے زیادہ معیشت کا ذکر کیا ہے۔ جائیداد کی تقسیم، سود کا خاتمہ، تجارت کے اصول، زکو و صدقات کی اہمیت، کاروباری معاملات کو تحریر کرنے کا حکم، حق مہر، نان نفقہ کے مسائل، دیانتداری، سچی گواہی، رزق حلال، یہ سب کچھ قرآن نے بتایا ہے۔ لیکن مولوی حضرات یہ سب کچھ سکھانے کی بجائے لوگوں کو فروعی اختلافات میں الجھا رہے ہیں۔ مدرسوں میں قرآن و حدیث کو بنیاد بنانے کی بجائے اپنے اپنے فرقہ اور مسلک کی کتابیں پڑھا رہے ہیں۔ اسلام نے راستے بند کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن یہاں دین کے نام پر جلسے جلوس اور ریلیاں ہو رہیں ہیں سڑکیں اور مارکیٹین بند کر کے شہریوں کو یرغمال بنایا جاتا ہے۔ لاڈ سپیکر کے بیجا استعمال نے الگ زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ مغرب میں دین کو دنیا سے الگ کرنے کا تجربہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ یہاں اسلام کو چند عبادات اور تسبیحات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ عمل کی کتاب کو ایصال ثواب بنا دیا گیا ہے مساجد میں وظائف پر تو بات ہوتی ہے لیکن اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ ایک پروگرام کے لاکھوں روپے وصول کرنے والوں کی پوری تقریر میں اسلام کا ذکر موجود نہیں ہوتا۔ وہی فروعی جھگڑے، گستاخی کے فتوے، الزام تراشیاں، اور مافوق الفطرت قصے کہانیاں۔ جو جتنا زیادہ اونچا بولتا ہے، زیادہ نعرے لگواتا ہے، مخالفین کو چیلنج دیتا ہے اس کی ریٹنگ سب سے اوپر ہو گی۔ عوام بھی یہی کچھ دیکھنا چاہتی ہے۔لیکن یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے کسی کو تو بیڑہ اٹھانا چاہیئے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاشرے کو دعوں اور نعروں کی بجائے عمل کی ضرورت ہے!!