مسرت نعیم
بین الاقوامی سیاست کا ایک اصول یہ ہے کہ دوستی اور دشمنی کبھی مستقل نہیں رہتیں۔ قومیں اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے غیبی نظام کے تحت دن لوگوں کے درمیان درمیان بدلتے رہتے ہیں – سوائے اللہ کی حاکمیت کے، کچھ بھی مستقل نہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدے سنبھالنے کے بعد روزانہ ایک نئی سرپرائزز سامنے آ رہی ہیں اور لگتا ہے کہ دنیا ایک غیر متوقع سفارتی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
امریکہ، جو عشروں سے روس کو ایک حریف کے طور پر دیکھتا آیا ہے، اب ممکنہ طور پر اسے ایک پارٹنر یا کم از کم غیر جانبدار قوت کے طور پر دیکھنے پر غور کر رہا ہے۔ اگر یہ رجحان حقیقت کا روپ دھارتا ہے تو مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، یورپ اور فلسطین سمیت کئی خطوں میں دور رس تبدیلیاں متوقع ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد، امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعاون کو قدرے مضبوط کیا جس کے نتیجے میں مصر کے صدر انور سادات نے روسی فوجی مشیروں کو ملک بدر کر دیا۔ اب جبکہ اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا تھا کہ وہ شام میں روسی فوجی اڈوں کو برقرار رکھنے کی اجازت دے تاکہ ترکی کے اثر و رسوخ کو محدود کیا جا سکے، دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اس مطالبہ پر کس طرح کا ردعمل دیتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہی عندیہ دیا تھا کہ وہ شام سے اپنی فوج نکالنا چاہتی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے لیے سب سے بڑی تشویش ترکی کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے، جس پر سابق امریکی مشیر اسٹیو بینن نے الزام لگایا تھا کہ صدر رجب طیب اردوان "عثمانی سلطنت کی بحالی" چاہتے ہیں۔ ایک امریکی سفارتکار کے مطابق، ٹرمپ شاید یہ کہہ سکتے ہیں کہ "مجھے پرواہ نہیں، تم لوگ ترکی سے خود نمٹ لو۔" اگر ایسا ہوتا ہے تو خطے میں روس اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعاون کے امکانات بڑھ سکتے ہیں جبکہ ترکی کو نئی سفارتی رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایران کے حوالے سے بھی روس کے کردار پر گفتگو جاری ہے۔ حال ہی میں کریملن کے ترجمان نے عندیہ دیا کہ مستقبل میں امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ایران کے جوہری پروگرام پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔ یہ امر اہم ہے کیونکہ 2015 میں اوباما انتظامیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں روس کو شامل کیا تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، اس معاہدے میں روس نے ایران کے موقف کی حمایت کی اور امریکی خدشات کو کمزور کیا۔ اگر امریکہ اور روس کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کو جوہری مذاکرات میں مزید رعایتیں حاصل ہوں۔ تاہم، یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ ایران سے براہ راست مذاکرات کو ترجیح دے۔
یہ صورتحال جنوبی ایشیا پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے، خاص طور پر بھارت کے لیے، جو روایتی طور پر روس کے قریب رہا ہے اور اپنی دفاعی ضروریات کے لیے اس پر انحصار کرتا آیا ہے۔ اگر امریکہ روس کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آتا ہے تو بھارت کو اپنے سفارتی اختیارات میں وسعت کا موقع مل سکتا ہے، مگر اگر امریکہ روس اور چین کے درمیان تقسیم پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بھارت کو سفارتی توازن برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے بھی اس تبدیلی کے مثبت اور منفی پہلو ابھر سکتے ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں روس کے ساتھ دفاع اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دی ہے۔ اگر امریکہ روس پر عائد پابندیاں ختم کر دیتا ہے تو پاکستان کو روسی اسلحہ اور توانائی کے شعبے میں مزید مواقع مل سکتے ہیں۔ تاہم، اگر امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی ترجیحات تبدیل کرتا ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم اہمیت دے سکتا ہے، خاص طور پر اگر بھارت اس سلسلے میں زیادہ اسٹریٹیجک حیثیت اختیار کر لے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی ہے۔
افغانستان کی صورتحال بھی اس پس منظر میں اہم ہے۔ اگر امریکہ، روس اور ایران کسی مفاہمت پر پہنچ کر افغانستان میں استحکام کے لیے تعاون کرتے ہیں تو پاکستان کے لیے اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہو سکتے ہیں۔ ایک مستحکم افغانستان پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، مگر اگر نئی اسٹریٹیجک ترتیب میں پاکستان کو کم اہمیت دی جائے تو یہ ایک چیلنج بن سکتا ہے۔
یورپی یونین کے لیے بھی یہ صورتحال پیچیدہ ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد یورپ نے روس پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں، اور اگر امریکہ روس کے ساتھ تعلقات بحال کر لیتا ہے تو یورپ کو اپنے موقف پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ نیٹو کے اندر خاص طور پر مشرقی یورپی ممالک روس کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، اور اگر امریکہ روس کے ساتھ مفاہمت کی طرف جاتا ہے تو نیٹو میں اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔
اقتصادی سطح پر، یورپ نے یوکرین جنگ کے بعد روسی توانائی پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگر امریکہ روس پر عائد پابندیاں ختم کر دیتا ہے تو روسی توانائی دوبارہ یورپی منڈیوں میں داخل ہو سکتی ہے جس سے یورپ کی توانائی پالیسی متاثر ہو سکتی ہے۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اس پیش رفت کے فلسطین اور غزہ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے غزہ کی صورتحال کو "ایک ویکیشن" سے تشبیہ دی، جو ان کے فلسطین مخالف موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر امریکہ روس کے ساتھ شراکت داری کی طرف بڑھتا ہے تو مشرق وسطیٰ میں روس کے کردار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ روس نے فلسطین کے معاملے پر ہمیشہ محتاط موقف اپنایا ہے اور اسرائیل کے ساتھ بھی قریبی تعلقات رکھے ہیں۔ ایسے میں اگر امریکہ اپنی توجہ مشرق وسطیٰ سے ہٹا کر روس کے ساتھ نئی حکمت عملی تیار کرتا ہے تو غزہ اور فلسطین کے لیے امریکی پالیسی مزید غیر واضح ہو سکتی ہے۔
آخر میں، ٹرمپ کا روس کی طرف جھکاؤ ایک بڑی سفارتی تبدیلی کی علامت ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات ابھی واضح نہیں ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان مکمل شراکت داری مشکل نظر آتی ہے، مگر مشرق وسطیٰ میں ایک نئی صف بندی کے آثار ضرور دکھائی دے رہے ہیں۔ حالات ایک نئے سفارتی توازن کی جانب بڑھ رہے ہیں، جہاں اتحادیوں اور حریفوں کے درمیان لکیر پہلے سے کہیں زیادہ دھندلی ہو سکتی ہے۔