حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com
سترہ اور اٹھارہ مارچ کو لاہور میں ہائی کورٹ اور اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی’’ حاضری ‘‘ہوئی‘ ان پیشی کے موقع پر محبان خان صاحب نے اپنے لیڈر سے جس محبت اور جس عقیدت کا اظہار کیا اس پر تبصروں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس سے قبل تیرہ چودہ اور پندرہ اکتوبر کوزمان پارک میں پی ٹی آئی کارکنوں نے جو ’’تماشا‘‘ لگایا تھا اسے سب نے دیکھا‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف کا پرچم بلند کرنے والی جماعت انصاف کا بول بالا ایسے بھی کرسکتی ہے؟ بی بی سی کی خاتون رپورٹر نے دوران انٹرویو خان صاحب سے پوچھ لیا کہ جس رول آف لائ کی آپ بات کرتے ہیں اسی قانون کے مطابق آپ کو عدالت نے سمن جاری کئے آپ ناقابل ضمانت وارنٹ کے پروانہ کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ مقام شکر ہے کہ لاہور میں پاکستان سپر لیگ کا مرحلہ ( 18 مارچ کو ) تمام ہوا۔ حکومت اور لاہور انتظامیہ پی ٹی آئی کو کہتی رہی کہ آپ سیاسی سرگرمیوں سے پی ایس ایل کو متاثر نہ کریں مگر حکومتی تجویز کو کسی سطح پر بھی پڑیرائی نہ مل سکی۔ پی ایس ایل میں شامل غیر ملکی کھلاڑی ہماری جمہورت اور جمہوری رویوں سے کیا تاثر لے کر جائیں گے اس بات کا احساس شاید کسی کو نہ ہو۔ یاد ش بخیر… 124 دن کے دھرنے کے بعد بھی خان صاحب کو احساس نہیں ہوا ان کے محبان انہیں بطور ہیرو دیکھنا چاہتے ہیں یا جنگجو سیاست دان ؟ پھر وہ دن بھی آیا جب وہ وزیراعظم بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپوزیشن جماعتوں یہاں تک کہ لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف سے بات کرنا اور بات سننا گوارا نہ کیا۔ شہباز شریف کی طرف سے تجویز آئی کہ’’ آئیں چارٹر آف اکنامی پر مل کر کام کرتے ہیں مگر خان صاحب نے مثبت جواب کی بجائے ہر تقریر میں انہیں چور، ڈاکو کہنا شروع کیا۔ پھر یہی باتیں وہ بیرون ملک بھی کرتے رہے۔ نیب کے ذریعے اپوزیشن سیاستدانوں کو سزائیں دلوانے کے لئے مقدمے بنا کر جیلوں میں بند کرایا اور جب اپوزیشن ان کے خلاف ہو گئے تو وہ وزیراعظم ہا?س چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے۔ بہر حال جب وہ اقتدار سے چلے گئے تو وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے پہلے امریکی خط دکھا کر شہریوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی اور اس کے بعد عسکری قیادت کو جلسوں میں مطعون کیا جو کام بھارت سے نہیں ہوا وہ یہاں جلسوں میں دیکھا گیا۔ دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنا دینے کے کانٹے بچھائے گئے! نجانے کون، کب، کس طرح اور کیوں پی ٹی آئی لانگ مارچ پر حملہ کیا گیا۔ عمران خان اور دیگر زخمیوں کو فوری طبی امداد کیلئے وزیر آباد سے شوکت خانم ہسپتال ہی پہنچایا گیا۔ اب الیکشن کمیشن میں بے شمار ان کے خلاف کیس موجود ہیں، جن کے فیصلے آئے ہیں، جس میں فارن فنڈنگ کا فیصلہ بھی ہے۔دوسری طرف قومی سیاست کا چہرہ ایسے ’’ ذمہ دار ‘‘ سیاست دانوں سے سجا ہوا ہے جنہوں نے بینکوں سے قرضوں اور توشہ خانہ کو اپنی’’ جاگیر‘‘ سمجھا ، ماضی پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا؟ 1971 سے 1991 تک 3.2 ارب روپے، 1991 سے 2009تک 84.6 ارب اور2009 سے 2015 تک 345.4 ارب روپے معاف کروائے گئے۔ سینیٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق گزشتہ 25سال میں 988 سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے چار کھرب، 30 ارب 6 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ ان میں انیس کمپنیوں یا افراد نے ایک ارب روپے سے زائد کا قرضہ معاف کروایا جبکہ عدالتوں میں بھی بینکوں کی اِن زیادتیوں کی صدائے بازگشت سنی گئی۔ایک طرف تو سنگ دِلی کا یہ عالم ہے کہ چند ہزار کے ڈیفالٹر کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ دریا دلی کہ اربوں روپے کا قرض ڈکارنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ قرض معاف کرنے کے یہ واقعات کسی ایک سیاسی دور سے تعلق نہیں رکھتے، ہر حکومت ایسی ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ پرویز مشرف تو آئے ہی کرپشن ختم کرنے کے لئے تھے،لیکن جتنا لمبا اْن کا عہدِحکومت تھا قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست بھی اتنی ہی طویل ہے۔جب پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ میں بینکوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا اس وقت بھی قرضے پہلےسیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر دیئے جاتے تھے اور پھر ایسی ہی مصلحتوں کی بنا پر معاف بھی کر دیئے جاتے تھے۔اس وقت تو زیادہ تر بینکوں کا تعلق نجی شعبے سے ہے تاہم حکومتیں اپنی سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر اب بھی قرضے معاف کرتی ہیں اور جن بینکوں کے حصص سرکاری ملکیت میں بھی ہیں وہاں تولوٹ مارمچی ہوئی ہے۔ ہر کوئی بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کے لئے بے قرار ہے۔
پاکستان ان دنوں معاشی بحران سے گزر رہا ہے قومی سلامتی کا مسئلہ بھی درپیش ہے حالات اس قدر سنگین ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار کو سینیٹ کی گولڈن جوبلی کے سلسلے کی خصوصی تقریب میں جوہری پالیسی سے متعلق غیر معمولی بیان دینا پڑا۔ قوم نے وزیرخزانہ نے حساس معاملات سے متعلق پالیسی بیان سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا رمضان المبارک کی آمد چند دنوں کے فاصلے پر ہے۔ مہنگائی کا نیا طوفان سراٹھانے کوہے غریب اور کم آمدن کے حامل خاندان منہگائی اور بیروزگاری سے پریشان اور مضطراب ہیں جبکہ دوسری طرف سیاسی تماشہ لگا کر نہ جانے ہم کس کی خدمت کررہے ہیں خدارا… ہوش کے ناخن لیں لوگوں کی مجبوری کا احساس کریں غریب‘ محنت کش اور بے وسیلہ افراد پریشان ہیں آپ ان کی پریشانی کمی نہیں کرسکتے تو کم ازکم مسائل میں اضافہ تو نہ کریں!!