
فہمیدہ کوثر
چاہے 23 مارچ قرارداد لاہور کادن ہو یا آزادی کادن ہم اسے مناتے تو ضرور ہیں لیکن اس دن کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے قرار داد پاکستان کے بعد ایک تقریب میں جب قائداعظم کے سامنے ایک کیک رکھا گیا تو اس میں مختلف رنگوں سے مختلف ریاستوں کی نمائندگی کی گئی تھی قائد نے تھوڑا سا حصہ لے لیا جس میں پاکستان کی ایک کلر کے ذریعے نمائندگی کی گئی تھی۔ ایک صحافی جو پاس کھڑاتھا اس نے قائد سے کہاکہ آپ نے اتنا کم لیا ہے اور لیجیے۔ تو اس پر قائد نے فرمایاکہ میں نے اپنا حصہ لے لیا ہے میں اپنے حقوق سے تجاوز نہیں کرتا اختیارات چاہے معاشرتی ہوں یا سیاسی حقوق سے تجاوز کی سزا وہ انتشار ہے جو لاقانونیت کے دروازے کھولتا ہیاور انتقامی سیاست اور دیوار سے لگانے کی سیاست کوفروغ دیتا ہے ہماری سیاست کی کشتی انتشار کے بھنور میں اتنی بری طرح پھنسی ہوئی ہے کہ ہم تیزی سے اس زوال کی طرف جا رہے ہیں جس نے ایک طرف تو ہم سے اخلاقیات اور اقدار چھین لی ہیں دوسری طرف معاشی اور سیاسی انتشار نے ہمیں تباہی کے دہانے پرلاکھڑا کیا ہم نے اس بھنور سے کیسے نکلنا ہے اس طرف ہمارا دھیان نہیں ہے کوئی کسی سے سوال ہی نہیں کرتا کہ بیچاری عوام کا کیا قصور جس کے ٹیکسز سے سارا نظام چلتا ہے وہ کتنی بدحال ہے ہم یہ سوچنا بھی نہیں چاہتے اندلس کی تاریخ میں ایسا ہوتا تھا کہ عوام غلام ابن غلام تھے اس دور کامورخ ڈلہوزی لکھتا ہے کہ عوام بادشاہوں کی بقا کے لئے دن رات کام کرتے بادشاہ شاہانہ زندگی گزارتے مہنگے لبا س اور جوتے پہنتے اور ان غلاموں کو دووقت کاکھانا بھی میسر نہیں تھا مسلمانوں نے اندلس کو فتح کیا توغلاموں کی زندگی میں بدلاو آیا لیکن جب مسلمانوں میں اقتدار کی ہوس نے جنم لیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے حقوق سے غافل ہوتے چلے گئے تو متوازی عیسائی ریاست نے ان کو اقتدار سے نکال کر دوسرے علاقوں میں پانیوں کے سفر پر بھیج دیا آخری فرمانروا جب کشتی میں بیٹھ کر روانہ ہوا تو اس نے تاریخی الفاظ کہے۔ آہ ،میرے عظیم شہر ہم نے ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے تجھے کھودیا تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ غلطی اور غلط فیصلے جتنے بڑے ہوتے ہیں اتنا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے فی الحال تو عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے جنہیں دو وقت کاکھانا میسر نہیں آٹے کے لئے لمبی لمبی لائنوں میں لگنے کے باوجود آٹا دستیاب نہیں ہے سوال یہ ہے کہ آزادی سے غریب عوام کوکیا ملا ہے کیا گورے لوگوں کو اقتدار سے ہٹاکر بھورے لوگوں کو اقتدار دے دینا آزادی ہے۔ انگریزوں کے دور میں عزت نفس نہ سہی جان اور مال کا تحفظ توتھا۔ اب تو وہ بھی نہیں ہے۔انگریز کے دور میں لوگ دن بھر کی مشقت کے بعد سکون سے تو سوجاتے تھے لیکن فکر معاش بیروزگاری جیسے محرکات نے تو غریب سے اس کی راتوں کی نیند چھین لی غالب اور میر کی شاعری میں محبوب تارے گن کر رات گزارتا تھا لیکن اب غربت سے ستایا شخص اپنے اہل۔ خانہ کی کفالت کا بوجھ اٹھائے ساری رات قسمت کے تاروں سے الجھتا رہتا ہے بقول شاعر
جب سب آوازیں سوجاتی ہیں
تب دھیرے دھیرے آنکھیں کھولتے ہیں
دکھ بولتے ہیں
اقتدار ایک جوابدہی کانام ہے حضرت ابوبکر صدیق فرماتے تھے کہ تم میں سے کمزور میرے نزدیک مضبوط ہے کہ میں اس کو اس کاحق نہ دلوادوں۔ مثبت رویہ اور سیکھنے کاعمل ہی سیاسی اور اخلاقی رویوں کو مضبوط کرتاہے بشرط یہ کہ آپ ہرلحاظ سے مثبت ہوں جن دنوں میں صادق آباد میں پڑھاتی تھی میری ایک اردو کی کولیگ میرے پاس بیٹھی مطالعہ کر رہی تھی اچانک اس نے سوال کیا کہ جابر بن حیان کون تھا میں تھوڑی سی چونکی یہ کیسا سوال ہے۔ میں نے کہا کہ سائنسدان تھا کہنے لگی کہ کچھ اور بتانا پڑگیا طالبات کو تو پھر ؟ میں نے کہا آپکا اردوکالیکچر یہی تقاضہ کرتاہے کہ صرف جتنا میں نے بتایا ہے وہی کافی ہے اچھا ٹھیک ہے۔ یہ کہہ کر اس نے جابر کو انڈرلائن کیا اور اس کے اوپر مجھ سے مفہوم پوچھ کر ظالم لکھا اور بن کے اوپر مجھ سے ہی پوچھ کر بیٹا لکھا پھر
مطمئن ہوگئی اگلے دن میں ہسٹری کی کلاس میں تھی دروازے کے باہردستک ہوئی میں نے باہر جاکر دیکھا وہی محترمہ کھڑی تھیں کیاہوا میں نے سوال کیا اس نے کہا میں تو اردو کی کلاس چھوڑ کر آئی ہوں پھر اس نے کتاب میرے آگے پھیلائی اور حیان کو انڈر لائن کرتے ہوئے کہا اس کا مطلب بتا و میرے لئے یہ حیران کن بات تھی بات صرف اتنی تھی کہ اس کی سوچ ایک نکتے پراٹک گئی تھی لیکن تعمیری بات یہ تھی کہ وہ سیکھنا چاہ رہی تھی لیکن یہی سوچ اگر منفی ہجائے اور کسی کومٹانے یا کھڈے لائن لگانے پر صرف ہونے لگے تو نقصان عوا م کا ہے۔ ہیگل کا اصول ہے کہ اگر کوئی جماعت غلط نظریہ پرکھڑی ہے تواسکے خلاف مخاصمانہ رویے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر حق کے ساتھ کھڑی ہے وہ اتنی شدت سے ابھر کرسانے آتی ہے جنتنی شدت سے دبایا جائے۔ صدیوں کے تلخ تجربے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جمہوری اصولوں کوپروان چڑھانے کے لئے جمہوری سوچ کی ہی ضرورت ہوتی ہے انتقام کے کونڈے میں جمہوریت کی کھچڑی نہیں پکتی ہے سوال یہ ہے کہ سالہا سال سے ہم نے جو جمہوریت کاپودا لگایا ہوا ہے وہ کیوں پنپ نہیں رہا وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جمہوریت کاچربہ ہے اصل جمہوریت نہیں ہے اصل جمہوریت تو ایک دوسرے کی رائے کے احترام کانام ہے ہم مغرب کے جمہوری نظام کا حوالہ تودیتے ہیں لیکن ہم جمہوریت کو طاقت کے ٹٹو سے ہانکنے کے عادی ہیں جمہوریت کے ٹشوز کو معاشرے کی رگوں میں پھیلنے اورسرایت ہونے کا ہم نے موقع ہی نہیں دیا ہے پھر ہم کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ ملک کے معاشی سیاسی اور جمہوری خدوخال کا مثبت رخ متعین کرسکیں