
جو لوگ سڑکوں پر ہیں یا سوشل میڈیا پر خیالات کا اظہار کر رہے ہیں وہ سیاست دان جنہیں ملک کے مستقبل سے زیادہ اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہے یا وہ جنہوں نے گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران ملک میں سیاست، کاروبار اور حکومت کرتے رہے انہیں آج بھی اپنی سیاست اور کاروبار کہ فکر ہے۔ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو سکتا اور کیا ہو جائے گا کسی کو اس کی پرواہ نہیں،کسی کو فکر نہیں ہے۔ کسی کے پاس سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ ملک کے حالات دیکھیں حکمران طبقے کے بیانات پر نظر دوڑائیں وہ جو حکومت میں ہیں یا وہ جو حکومت میں آنے کے دعویدار ہیں سب کو دیکھیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر کوئی خود کو ناگزیر سمجھتا ہے ہر کوئی خود کو حرف آخر سمجھتا ہے ہر کوئی خود کو سب سے بڑا ایماندار، پاکباز اور محب وطن سمجھتا ہے جب کہ حقیقت یقینی طور پر اس کے مختلف ہے۔ کسی کی حب الوطنی پر تو شک نہ کرنا بہتر ہے لیکن دیگر پہلوؤں پر آپ آزادانہ رائے دے سکتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کو بھی سو فیصد نمبرز نہیں دیے جا سکتے۔ بہرحال یہ تکلیف دہ پہلو ہے وہ بھی ان حالات میں کہ جب کم انیس سو اکہتر میں ملک کو دو ٹکڑے ہوتا دیکھ چکے ہوں۔ آج بھی بہت سے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے پاکستان بنتے بگڑتے اور ٹوٹتے دیکھا ہے اور وہ آج تک کے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ نا صرف مختلف وقتوں،حادثات، سانحات کے گواہ ہیں بلکہ وہ ان کرداروں سے بھی بخوبی واقف ہیں جنہوں نے مختلف وقتوں میں ذاتی مفادات کی خاطر ملکی مفادات کو نظرانداز کیا، ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور ملک کو نقصان پہنچایا آج بھی حالات کچھ مختلف نہیں جن سانحات سے ہم گذرے ہیں آج خدانخواستہ ہم پھر اس طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ناقابل تلافی نقصان جیسے الفاظ استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ پاکستان دولخت ہوا اور یہ نقصان ناقابل تلافی ہے کیا ہم پھر کسی ایسے ہی نقصان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اللہ رحم فرمائے اور ہمارے حکمران طبقے کے دلوں کو بدل دے۔ آج بھی بہت سے لوگ راتوں کو جاگ کر ملک کے لیے دعائیں کرتے ہیں چونکہ ان کا بس صرف دعاؤں کی حد تک ہے۔ وہ اس سے بڑھ کر کچھ کر نہیں سکتے۔ وہ راتوں کو جاگتے ہیں اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہیں۔ اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں شاید وہ کوئی بڑا دکھ برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ دہائیوں سے خون دیکھ رہے ہیں۔ پہلے قیام پاکستان کے لیے خون دیکھا پھر پاکستان کو قائم رکھنے کے لیے آج تک خون دیکھ رہے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ آج ایک مرتبہ پھر ویسے ہی حالات ہیں۔ ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ شہریوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ اس مہم کا مقصد صرف اور صرف اداروں کو کمزور کرنا ہے۔ کیا لوگ نہیں جانتے کہ اداروں کے کمزور ہونے کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔ کیا ہم ان بدترین نتائج کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماحماد اظہر نے پولیس افسران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہر افسر سے ساری عمر حساب لیا جائے گا۔ ہمارے پاس آئی جی سے لے کر سپاہی تک سب کی تفصیل موجود ہے، حکومت میں آ کر ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔ لاہور میں ہمارے ہزار سے زیادہ کارکن لاپتہ ہیں، جس نے بھی آئین توڑا سب کو حساب دینا ہوگا۔ زلفی بخاری کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا جلسہ لاپتہ افراد کے لیے آواز بلند کرے گا، اوور سیز پاکستانی آزادانہ الیکشن کے لیے کھڑے ہیں۔
حماد اظہر کو آج ہونے والی کارروائیاں خلاف آئین لگتی ہیں لیکن جب ان کی اپنی حکومت تھی کیا اس وقت حالات مختلف تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ اپنے لوگوں میں اداروں کے خلاف نفرت کیوں بھر رہے ہیں۔ آپ سڑکوں پر ٹریفک روک دیں، پتھراؤ کریں پیٹرول بم پھینکیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان اس ظلم اور تشدد کے جواب میں کیا کریں۔ اگر آپ اپنی حکومت میں مقدمات قائم کریں گے تو جب آپکی حکومت نہیں ہو گی اس وقت کیا ہو گا۔ یہی لوگ آپکی حفاظت پر مامور ہیں۔ یہی لوگ پہلی دفاعی لائن ہیں۔ اگر آپ انہیں کمزور کریں گے تو یہ آپکا دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔کچھ خدا کا خوف کریں اس ملک پر رحم کریں۔ ان بزرگوں پر رحم کریں جو آج بھی ملک کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے ییں۔ راتوں کو جاگتے ہیں۔ ان پر رحم کریں جنہوں نے ہمارے لیے ایک آزاد ملک کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا تھا۔ ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ضائع کرنے کے درپے ہیں۔ آدھا ملک ہم پہلے ہی گنوا چکے جو بچا کھچا ہے کیوں اسے اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
غریب آٹا حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں زخمی ہو رہے ہیں اور جان دے رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات کی قلت یا سہولیات کی عدم فراہمی یا وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے جان دے رہے ہیں لیکن ان بیبس پاکستانیوں پر کسی کو رحم نہیں آ رہا مرنے والوں کی ذمہ داری ماضی کے حکمرانوں پر ڈالی جا رہی ہے اور جو حکومت میں آنے کے دعویدار ہیں وہ موجودہ حکمرانوں پر الزام لگا رہے ہیں۔ درحقیقت دونوں ہی ناکام ہیں۔ دونوں کے پاس مسائل کا حل نہیں ہے۔ دونوں ہی بیڈ گورننس کی واضح مثالیں ہیں۔ دونوں ہی وسائل سے محروم افراد کی محرومیوں سے فائدہ اٹھا کر صرف اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں بدامنی ہے، قتل ہو رہے ہیں، لوگ لٹ رہے ہیں لیکن دوسری طرف صرف اور صرف حصول اقتدار یا اقتدار کو قائم رکھنے کی سیاست ہو رہی ہے۔ میری ان تمام طاقتور افراد سے جو فیصلے کی طاقت رکھتے ہیں اور ملک کو موجودہ مسائل سے نکالنے کے لیے بڑے فیصلے کر سکتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ ملک و قوم پر رحم کریں۔ اس ملک کے شہدا کا خیال کریں۔ اس ملک کے لیے بہتر مستقبل قربان کرنے والوں کا خیال کریں۔ اس خون کو جو آزادی حاصل کرنے یا آزادی قائم رکھنے کے لیے بہایا گیا ہے اس خون کی اتنی بے قدری تو نہ کریں۔ اس ملک پر رحم کریں، اس ملک پر رحم کریں، اس ملک پر رحم کریں۔