ریکوڈک نیا معاہدہ: پاکستان کی تاریخ ساز کامیابی
ماضی میں پاکستان کی معاشی تقدیر کے ساتھ کی گئی خرابیوں میں سے ایک صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے کی کانوں کے حوالے سے کیا جانے والا معاہدہ بھی تھا جس پر عملدرآمد نہ ہوسکا بلکہ یہ بدقسمتی سے بلوچستان کے پسماندہ عوام کے لیے خوشیوں کا پیغام اور پاکستان کے معاشی استحکام کا سبب بننے کی بجائے الٹا عذاب بن گیا۔ یہ مسئلہ اس وقت بنا جب پاکستان کی طرف سے چاغی سے سونا و تانبا نکالنے کے لیے 1993ء میں ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ ہونے والے خفیہ معاہدے کی جزیات2006 ء میں ریکوڈک معاہدے کے خلاف بلوچستان ہائیکورٹ سے رجوع کیے جانے پر سامنے آئیں ۔
معاہدے کے حوالے سے سب سے بڑا الزام یہ تھاکہ سونا نکالنے کا غیر ملکی کمپنی کو دیا جانے والا ٹھیکہ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر دیدیا گیا ۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے اخبارات میں کوئی اشتہار بھی سامنے نہ آیاتاکہ ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنی کے مدمقابل دوسری کوئی کمپنی نیلامی کے عمل میں شریک نہ ہوسکے۔ مقدمہ کرنے والوں کا موقف تھا کہ اس طرح کی شرائط پر توریت کا ٹھیکہ بھی نہیں دیا جاتا۔
بلوچستان ہائیکورٹ کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ آنے سے پہلے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر مقدمہ اپنے پاس طلب کر لیا اور بلوچستان ہائیکورٹ کی طرف سے کمپنی کو کام روکے جانے کا حکم نامہ برقرار رہا۔
اسی دوران غیر ملکی کمپنی نے 2011ء میں ریکوڈک معاہدے کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کے خلاف عالمی بینک کے ذیلی ادارے انٹر نیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ (آئی سی ایس آئی ڈی) کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پاکستان سے بلوچستان میں ریکوڈک معاہدے پر عملدرآمد میں ناکامی کے سلسلے میں تقریباً ساڑھے گیارہ ارب ڈالر لے کر دینے کا مطالبہ کردیا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان میں 220 ملین ڈالر خرچ کر چکی ہے ۔
2013ء میں سپریم کورٹ نے غیر ملکی کمپنی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے مابین ہونے والے ریکوڈک معاہدے کے خلاف فیصلہ دے کر کمپنی کو بلوچستان میں کام کرنے سے روک دیا تاہم غیر ملکی کمپنی میں عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا سلسلہ جاری رکھا اور برٹش ورجن آئی لینڈ کے ہائیکورٹ سے پاکستان کے خلاف انصاف کے لیے رجوع کرلیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کے ہرطرف سے پاکستا ن پر ریکوڈک معاہدے پر عمل درآمد میں ناکامی پر غیر ملکی کمپنی کو جرمانہ ادا کرنے کا خوف دلایا جانے لگا۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ پاکستان کو ساڑھے گیارہ ارب ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض پاکستان کے لیے جرمانہ کی مدد میں اتنی خطیررقم کی ادائیگی چاہے یہ آسان اقساط کی صورت میں بھی ہوتی،کسی بہت بڑے عذاب سے کم نہیں تھی۔ کہاں دوست ممالک سے ایک دوارب ڈالر قرض لینے کے لیے پاکستان کو منتیں کرنا ، آئی ایم ایس سے قرض کے لیے عوام کو ٹیکسوں کی صورت میں مہنگائی کی چکی میں پیسنا پڑتا ہے ۔ اوپر سے ساڑھے گیارہ ارب جرمانے کا بوجھ پاکستان کو دیوالیہ کرنے کا سبب سکتا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کواس مشکل سے نجات دلانے کا عزم کیا اور ریکوڈک معاہدہ کی فریق کمپنی سے بات چیت کا سلسہ شروع کردیا گیا ۔ اس میں ترکی کے صدر طیب اردگان نے بھی پاکستان کے حق میں اہم کردارادا کیا۔
آخر کار یہ کوششیں رنگ لائیں، ناصرف ساڑھے گیارہ ارب ڈالر کا جرمانہ معاف کرالیا گیا بلکہ مذکورہ کمپنی کو بلوچستان میںسونا اور تانبا نکالنے میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر بھی راضی کر لیا گیا۔ اس حوالے سے عمران خان کی موجودگی میں 23 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں تقریب منعقد ہوئی جس میں نئے ماہدے پر دستخط کیے گئے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق، اس نئے معاہدے پر عمل درآمد کے نتیجے میں بلوچستا ن میں 8ہزار ملازمتوں کے مواقع فراہم ہوں گے۔ یہ ملازمتیں بلوچ عوام کی غربت و پسماندگی کو دور کرنے اور بلوچستان کی تعمیرو ترقی میں سنگ میل ثابت ہوں گی۔
علاوہ ازیں، پاکستان دشمن عناصر کی طرف سے بلوچستان میں غربت کو لے کر کیے جانے والے پروپگنڈا کی نفی ہوگی جس کی بنیا دپر نام نہاد بلوچ علیحدگی پسند لیڈر معصوم بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر انہیں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی عناصر ہیں جنہوں نے سات دہائیوں سے بلوچستا ن میں ترقی کے عمل کو روک رکھا اوراس کی وجہ سے وہاں موجود پسماندگی کو دنیا کے سامنے علیحدگی کی تحریک کے جوازکے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
اب ایک طرف چین پاکستان اقتصادی راہداری تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے تو دوسری طرف گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے بلوچستان کے عوام بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے بحال ہورہے ہیں۔ ان کے لیے علم و شعور کے دروازے کھل رہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم سے آراستہ اور ان کے لیے صحت کی اعلیٰ سہولیات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ ورنہ یہ سب کچھ پہلے صرف سرداروں اور ان کی آل اولاد تک محدودتھا۔
سرداروںکے بچے مغربی ممالک کے بڑے شہروں میں جاکر تعلیم حاصل کرتے ۔ وہیں مستقل سکونت اختیار کرتے اور بلوچ عوام کو سبق پڑھاتے کہ ان کی غربت و پسماندگی پاکستان سے جڑے رہنے کی وجہ سے ہے۔ بلوچ سردار وفاق سے مراعات حاصل کرتے، اقتدار کے مزے لوٹتے اور عوام الناس کی بہبود کے لیے ملنے والے فنڈز اپنے ذاتی خزانوں میں منتقل کرتے ۔ بلوچستان میں کس کی مجال تھی کہ وہ ان سے قومی خزانے کی لوٹ مار پر جواب طلب کرتا۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہورہی ہے ۔
معاہدے کے مطابق، ریکوڈک سے حاصل ہونے والی آمدن کا پچاس فیصد بیرونی سرمایہ کار کمپنی حاصل کرے گی جبکہ باقی پچاس فیصد میںسے 25فیصد وفاق اور 25فیصد بلوچستان کو ملے گا۔یوں ترقی بلوچستان کے دروازے پر دستک ہی نہیں دے رہی بلکہ بلوچ عوام کو نوید دے رہی ہے کہ تعمیرو ترقی ان کی منتظر ہے۔ بلاشبہ ریکوڈک میں سونے و تانبے کے ذخائر کو نکالنے کے حوالے سے ہونے والا نیا معاہدہ بلوچستان کی عوام و پاکستان کے لیے تعمیرو ترقی کی نئی راہوں کا تعین کرنے کے علاوہ پورے خطے میں بسنے والے عوام کے لیے خوشحالی کا سبب ہوگا ۔