کرونا وائرس کی عالمی جنگ، وزیراعظم کا خطیر رقم کے ریلیف پیکیج اور پٹرولیم نرخوں میں کمی کا اعلان
وزیراعظم عمران خان نے ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی سست روی سے نمٹنے اور مزدور طبقے کے ریلیف کیلئے 880ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کر دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 15روپے فی لٹر کمی کا اعلان بھی کیا جس کا منگل کی شب باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا اور پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نئے نرخ 25مارچ سے نافذالعمل بھی ہوگئے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں سینئر صحافیوںسے ’’کرونا وائرس‘‘ کی روک تھام پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے، تاہم فی الحال کرفیو نہیں لگا سکتے جو لاک ڈائون کا آخری مرحلہ ہے اگر خدانخواستہ کرفیو لگانا پڑا تو پہلے پوری تیاری کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے جہاں کرونا کا خدشہ ہو، اسے سیل کر دیا جائے۔ کرفیو لگانے پر انتظامیہ کے ساتھ ملکر رضاکاروں کی فورس بنانا پڑے گی، جس کے ذریعے غریبوں کو کھانا گھروں پر پہنچانا پڑے گا۔ وزیراعظم کے بقول یہ ٹی ٹوئنٹی کا کھیل نہیں، ہوسکتا ہے صورتحال 6مہینے تک برقرار رہے۔ ہمیں افراتفری کے بجائے دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ ٹرانسپورٹ بند کرنے سے سب سے بڑا مسئلہ سپلائی کا آتا ہے، لوگوں کو پکڑ کر جیلوںمیں ڈالا گیا تو وہاں بھی کرونا پھیل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبے خود فیصلہ کرتے ہیں، وفاق صرف تجویز کرسکتا ہے۔ انہوں نے ریلیف پیکیج کے حوالے سے اعلان کیا کہ 300یونٹ تک گیس اور بجلی کے بل 3ماہ تک قسطوں میں وصول کئے جائیں گے۔ ان کے بقول لاک ڈائون کے اثرات سے نمٹنے کیلئے 100ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ہر غریب اور مستحق خاندان کو 4ماہ تک 3000روپے ماہانہ ادا کئے جائیں گے۔ اسی طرح دالوں سمیت متعدد اشیاء پر ٹیکس کی شرح کم کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے اعلان کردہ ریلیف پیکیج میں سے مزدور طبقہ کیلئے 200ارب روپے، یوٹیلیٹی سٹورز کیلئے 50ارب روپے ،گندم کی سرکاری خریداری کیلئے 280ارب روپے اور انتہائی غریب طبقے کیلئے 150ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ 100ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ سے صنعتیں لیبر پر خرچ کرسکیں گی۔ اس سلسلہ میں برآمدی صنعت کو 100ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ فوری طور پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 50ارب روپے میڈیکل ورکرز کیلئے بھی مختص کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس سے طبی آلات لینے کیلئے اور دوسری طبی سہولیات کی فراہمی میں ان کی مدد کی جائے گی۔ ریلیف پیکیج کے تحت کھانے پینے کی اشیاء بشمول دال ،چاول اور گھی وغیرہ پر ٹیکسز ختم کر دیئے گئے ہیں یا انتہائی کم کر دیئے گئے ہیں، اس سے اشیائے خوردنی کے نرخوں میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔
وزیراعظم کے بقول آئندہ چند روز میں تعمیرات کی صنعت کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے گا، جس سے اس صنعت میں بیروزگاری کے خاتمہ میں بھی مدد ملے گی اور دیگر صنعتوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم نے میڈیا ورکرز کیلئے بھی خصوصی پیکیج تیار کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم کے اعلان کردہ ریلیف پیکیج کی روشنی میں وزارت خزانہ نے گزشتہ روز بعض اقدامات اٹھا بھی لئے ہیں، صنعتوں اور برآمدکنندگان کیلئے سود کی ادائیگی مؤخر کرنے کی منظوری دے دی ہے جبکہ زراعت اور چھوٹی و درمیانے درجے کی صنعتوں سے قر ض کی وصولی بھی مؤخر کر دی گئی۔ اسی طرح غریب خاندانوں کیلئے 144ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دی گئی، جس سے ایک کروڑ 20لاکھ خاندانوں کی 4ماہ تک مالی معاونت کی جائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی 3ماہ کیلئے کی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جان لیوا کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے آج پوری دنیا حالت جنگ میں ہے اور کرونا وائرس کے تدارک کی اس جنگ کو ’’تیسری عالمی جنگ‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے جبکہ اس جنگ میں سب سے زیادہ خطرناک یہ صورتحال درپیش ہے کہ دشمن کو زیر کرنے کیلئے ابھی تک طاقت و اختیار والی دنیا میں بھی کوئی مجرب و مؤثر ہتھیار ویکسین کی شکل میں ایجاد نہیں ہوسکا، اس لئے اس جنگ سے نمٹنے کا فی الحال واحد راستہ احتیاطی اقدامات ہیں جو مقدور بھر اٹھائے بھی جا رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کے 200سے زائد ممالک اس جان لیوا وائرس کی زد میں ہیں اور اب تک مجموعی 17ہزار اموات ہوچکی ہیں جبکہ متعلقہ ممالک میں 4لاکھ سے زائد افراد کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان ممالک کے 3ارب باشندے اٹھائے جانے والے احتیاطی اقدامات کی بنیاد پر اپنے گھروں میں محصور ہوچکے ہیں۔ اس موذی وائرس نے فی الحقیقت پوری دنیا کی معیشت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے جبکہ ہر قسم کا کاروبار زندگی مفلوج ہوچکا ہے۔ پاکستان بھی کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے جہاں اس وقت اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1000سے تجاوز کرچکی ہے اور گزشتہ روز لاہور میں اس وائرس سے ہونے والی پہلی موت کے بعد پاکستان میں مجموعی اموات کی تعداد 7ہو گئی ہے اورجس رفتار سے کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے، اس کے پیش نظر ہمیں بھی وہ تمام احتیاطی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو اس وائرس سے نمٹنے کیلئے چین میں اٹھائے گئے اور امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور اٹلی سمیت پورے یورپ، مغربی دنیا، سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں سمیت مشرق وسطیٰ ، جنوبی وسطی ایشیا اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اٹھائے جا چکے ہیں اوراٹھائے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا احتیاطی اقدام مکمل لاک ڈائون کا ہے تاکہ لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ اور میل جول کرونا وائرس کے مٹنے تک منقطع رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے متعدد ممالک میں کرفیو بھی لگایا جا چکا ہے اور ہر قسم کی انسانی نقل و حرکت کے آگے بند باندھا جا چکا ہے۔ ایسے اقدامات کے معیشت و معاشرت پر لامحالہ منفی اثرات بھی مرتب ہوں گے، تاہم انسانی بقاء کی خاطر یہ پابندیاں قبول کرنا ناگزیر ہیں۔ چنانچہ ہم محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہ سکتے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مکمل احساس و ادراک بھی ہے اور وہ عوام الناس کی جانیں بچانے کیلئے اس جنگ سے نمٹنے کی فکر مندی بھی رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ وزیر اعظم کو یہ احساس بھی ہے کہ مکمل لاک ڈائون کے منفی اثرات کی زد میں آئے ملک کے غریب ، مزدور ، دیہاڑی دار طبقات کی نان جویں کی ضروریات کیسے پوری ہو پائیں گی۔ یقیناملک کی معیشت اتنی مستحکم نہیں کہ کرونا جیسے کسی بحران کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی کساد بازاری سے عہدہ برآء ہو سکے جبکہ صنعتیں اور دوسرے کاروبار بند ہونے سے ملک میں بیروزگاری کا بھی سیلاب آ سکتا ہے جو فاقہ کشی پر منتج ہو سکتا ہے۔ اس ممکنہ صورتحال اور خدشات کو بھانپ کر ہی وزیراعظم عمران خان نے ملک میں مکمل لاک ڈائون کی پالیسی اختیار کرنے سے گریز کیا، تاہم اس وقت بھی پنجاب سمیت ملک کے تمام صوبوں اور آزادکشمیر میں جاری لاک ڈائون کے نتیجہ میں پرائیویٹ سیکٹر کے تمام کاروبار بند ہو چکے ہیں جن سے وابستہ افراد میں عملاً فاقہ کشی کی نوبت آ سکتی ہے۔ اس کٹھن صورتحال سے عہدہ برآء ہونے کیلئے وزیر اعظم نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں نمایاں کمی اور ٹیکسوں کی چھوٹ سمیت ریلیف پیکیج کے تحت جو اقدامات اٹھائے ہیں، ان سے یقینا متاثرہ غریب طبقات کی مالی اعانت بھی ہو گی اور مہنگائی کا بوجھ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ حکومتی اقدامات روزمرہ کی بنیاد پر صورتحال کا جائزہ لیکراٹھائے جا رہے ہیں اور اگر کل کو مکمل لاک ڈائون (کرفیو) کی نوبت آئی تو اس سے پیدا ہونے والے نئے اقتصادی مسائل ریلیف کے مزید اقدامات اٹھانے کے متقاضی ہوں گے جس کیلئے بلاشبہ قوم کے متمول و مخیر طبقات کو بڑھ چڑھ کر آگے آنا ہو گا۔ حکومت نے تو بہرصورت قومی وسائل کے اندر رہتے ہوئے ہی ممکنہ اقدامات اٹھائے ہیں جس کیلئے حکومت کمربستہ بھی ہے۔ اب ملک کے دوسرے طبقات کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی مخالفانہ اور پوائنٹ سکورنگ کی سیاست میں الجھے بغیر فلاحی اقدامات کیلئے حکومت کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں۔ اس حوالے سے جہاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستانی قوم یکجان ہو کر کرونا کا مقابلہ کرے گی اور افواج پاکستان گلگت بلتستان کے عوام سمیت ملک کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گی، وہیں قومی و سیاسی قائدین بشمول اپوزیشن لیڈران بھی کرونا کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے یکسو ہو چکے ہیں اور گزشتہ روز میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی مشترکہ صدارت میں ہونے والی آل پارٹیز ویڈیو کانفرنس میں کرونا کی جنگ سے عہدہ برآء ہونے کیلئے متفقہ قومی لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اگر اس آل پارٹیز کانفرنس میں حکمران پی ٹی آئی کو بھی مدعو کر لیا جاتا تو قومی سطح کا ٹھوس لائحہ عمل طے کرنے میں آسانی ہوتی، تاہم اس وقت میںاپوزیشن جماعتوں کا حکومتی اقدامات کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔ یہ ملک بیشک سب کا ہے، جس کے تحفظ اور عوام کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھانے کی بھی حکومت ، اپوزیشن اور دوسرے مؤثر طبقات سمیت سب پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم نے اس جنگ میں بہرصورت اجتماعی طور پر سرخرو ہونا ہے جس کیلئے تاجروں، صنعتکاروں اور قومی ریاستی اداروں سمیت سب کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ اللہ ہماری مدد فرمائے اور ہم بحیثیت قوم اس آزمائش میں سرخرو ہو کر صحت مند معاشرہ کی بنیاد مستحکم کرنے کے قابل ہو جائیں۔