جمعرات ‘ یکم شعبان 1441ھ ‘ 26 ؍ مارچ 2020 ء
پیاز کی برآمد پر پابندی میں 31 مئی تک توسیع
حکومت کا یہ فیصلہ 100 فیصد درست ہے اب ذخیرہ اندوزی کرنے والے رو رہے ہوں گے۔ کیونکہ یار دوستوں نے کرونا کا کافی و شافی علاج بھی پیاز میں ڈھونڈ لیا تھا۔ ان نیم حکیم قسم کے ٹوٹکوں کے ماہرین کو خدا ہی عقل دے۔ کوئی بیماری آئے ذہنی نفسیاتی یا جسمانی عارضہ لاحق ہو خدا جانے یہ لوگ کہاں کہاں سے سنی سنائی باتوں کو اپنے باپ دادا کا قیمتی مجرب مسند طبی نسخہ قرار دے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اب پیاز کو ایک بار پھر تریاق کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہوتی تو کرونا کا علاج امریکہ ، چین ، برطانیہ ، فرانس، جرمن کے ڈاکٹروں کی بجائے ہمارے ’’سائیں‘‘ بھائی کب کا ڈھونڈ چکے ہوتے اور دنیا بھر میں ان کی تحقیقات پر مبنی طبی لٹریچر اور ادویات استعمال ہو رہی ہوتیں۔ مگر افسوس ایسا کچھ نہیں کسی مستند سے مستند پڑھے لکھے نے بھی ابھی تک پیاز کو کرونا کے لئے تریاق قرار نہیں دیا۔ نہ اسے کرونا کا شافی علاج بتایا ہے۔ اس لئے فی الحال ثابت یہی ہوتا ہے کہ پیاز کی دھڑا دھڑ بے مقصد خریداری کا کوئی فائدہ نہیں۔ فی الحال اسے صرف ہانڈی میں تل کر سالن کے ذائقے اور گریوی میں اضافے کے لئے یا پھر سلاد کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اب حکومت نے جب دیکھا کہ پیاز کی بیرون ملک فروخت سے ملک میں پیاز کی طلب بڑھنے کی وجہ سے اس کی قیمت ایک بار پھر کسی ملکی بحران کی طرح بڑھ سکتی ہے تو حکومت نے بروقت اس کی بیرون ملک برآمد پر پابندی لگا دی ہے اور اب اس توسیع میں 31 مئی تک توسیع کر کے عوام کے دستر خوانوں پر اس کی موجودگی یقینی بنا دی ہے۔ ورنہ لوگ ایک بار پھر پیاز کی دہائی دیتے نظر آنے لگے تھے۔
٭٭٭٭٭
بھارت نے عمر عبداللہ کو رہا کر دیا
لگتا ہے غدار خاندان کے غدار ابن غدار نے پھر پرانی تنخواہ پر نوکری منظور کر لی ہے اسی لئے پہلے ان کے والد فاروق عبداللہ کو اور اب عمر عبداللہ کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ 7 ماہ کی قید میں موصوف نے اپنا حلیہ بھی بدل لیا ہے اب اپنے چہرے پر داڑھی سجا لی ہے۔ شاید اس طرح وہ اپنے چہرے پر لگی غداری کی کالک چھپانا چاہتے ہیں۔ مگر کشمیری عوام اب اپنے غداروں کو خواہ مفتی خاندان ہو شیخ خاندان یا بخشی خاندان کسی سے بھی ہوں کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں۔ اب کوئی داڑھی رکھے یا چار ابرو کا صفایا کر کے سادھو بنے۔ ان شیطانوں کو کشمیری ہر رنگ میں پہچان لیتے ہیں اور کچھ ہو نہ ہو ان 234 دنوں میں بھارت سے الحاق کی مالا جپنے والوں بھارت کو مہان بھارت کہنے والوں، اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے والوں کو اپنی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا۔ ان غداروں کی حیثیت اور قدر و قیمت بھارت کے نزدیک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں جسے استعمال کر کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا جاتا ہے۔ تاریخ میں بھی ان کی اصل جگہ صرف اور صرف ردی کی ٹوکری ہے جو لوگ ملک و قوم سے غداری کرتے ہیں ، ان کے مصائب کا ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے لہو کا جام پیتے ہیں ان کی لاشوں پر اپنے تاج محل تعمیر کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی رنگ میں آئیں جعفر از بنگال صادق از رکن ہمیشہ اور ہمیشہ ننگ دین و ننگ وطن ہی رہیں گے۔ ان پر پھٹکار برستی رہی ہے اور رہے گی۔
٭٭٭٭
شاہد آفریدی نے راشن کی تقسیم شروع کر دی
اس مشکل وقت میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگ حسب توفیق اس وبا کے باعث متاثر ہونے والے شعبہ ہائے زندگی کے لاکھوں غریب لوگوں کی مدد کرنے میں پیش پیش ہیں۔ حکومت بھی ماہانہ بنیاد پر راشن دے کر رقم دے کر بلوں میں رعایت دے کر اپنا فرض نبھا رہی ہے۔ ایسے میں بوم بوم لالہ آفریدی بھی نجی طور پر غریب لوگوں میں جن کی دیہاڑی اس وبا کی وجہ سے لگنا بند ہو گئی ہے کو روزانہ کی بنیاد پر راشن پہنچانے لگے ہیں۔ یہ ایک اچھا عمل ہے۔ اگرچہ ہمارے باقی مخیر حضرات بھی اس نیک کام میں پیش پیش ہیں۔ مگر اکثریت ابھی تک گومگو کی کیفیت میں ہے۔ اگر وہ بھی ’’پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے‘‘ کو حرز جاں بنا لیں تو ریڑھی والے، رکشے والے ، دیہاڑی والے مزدوروں کو جن کی آمدنی کا واحد ذریعہ بھی بند ہو گیا ہے ریلیف مل سکتا ہے۔ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ حکومت اور مخیر حضرات کی یہ مالی امداد مل کر لاکھوں خاندانوں کو بھوک و ننگ کی اذیت سے بچا سکتے ہیں۔ کرونا امیر یا غریب کو نہیں دیکھتا تو اس کا شکار ہونے سے پہلے اچھا نہیں کہ ہم اپنے مال و متاع سے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں ان کی دعائیں لیں۔
٭٭٭٭٭
محبوبہ کے منہ پر چھینک مار کر منچلے نے بے وفائی کا بدلہ لے لیا
اب وہ زمانہ گیا جب بے وفائی پر ظالم عاشق اپنے محبوب پر تیزاب پھینکتا یا اسے گولی مارتا۔ اکثر وارداتوں میں تو یہ نامراد عاشق اور محبوب قصاب بن کر چھری ،چھرے یا کلہاڑی سے بھی کام لیتے تھے۔ اب بھی یہ وارداتیں عام ہیں۔ گرچہ کئی بے ضرر محبوب یا عاشق آج بھی یہ صدمہ دل پر لے لیتے ہیں اور حضرت مجنوں ، فرہاد ، رانجھے اور پنوں کی طرح دشت و جنگل آباد کرتے ہیں بقول شاعر
ہم جو اے صر صر غم تجھ سے الجھ جاتے
گیسوئے دوست پریشاں نہیں ہونے پاتے
کی عملی تصویر بن جاتے ہیں کئی محبوب اور محب تو صدمے سے خودکشی کر لیتے ہیں۔ کسی کا قتل ہو یا اپنی جان لینا یہ ممنوعات میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں دیگر مکروہات کی طرح یہ ممنوعات عام ہیں۔ مگر یہ جو کیرالہ بھارت کے اس عاشق نے اس وبا کا بروقت استعمال کر کے اسے بطور ہتھیار استعمال کیا وہ خاصہ دل ہلا دینے والا ہے۔ اس کم بخت نے تو ماضی کی تمام حدود پھیلانگ لیں۔ اب کرونا سے متاثر اس شخص نے اپنی محبوبہ سے بے وفائی کا بدلہ کچھ اس طرح لیا کہ جا کر محبوبہ کے چہرے پہ چھینک مار دی یوں جان دینے کا دعویٰ کرنے والا خود جان لینے والا بن بیٹھا۔ اب قانون کیا کرے گا یہ تو پتہ نہیں البتہ اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کا کیا حال ہو گا یہ وہی جانتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے اس دور ابتلا میں لڑکا ہو یا لڑکی حفاظتی ماسک و دستانے پہن کرہی نکلے کیا پتہ کہاں کب کوئی دل جلا انتقام لینے کے لئے چھینک مارتا حملہ آور ہو۔
٭٭٭٭٭