کشمیر پالیسی اور عملی پیشرفت

کئی ماہ قبل جب مودی سرکار نے کشمیر کے حق خودارادیت کو غصب کرنے کیلئے بھارتی آئین میں ترامیم کیں تو جہاں کشمیریوں نے اس پر شدید مزاحمت کی وہیں پاکستان میں بھی ہر طبقہ فکر نے مودی حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کی۔ پاکستان کے عوام، حکومت اور فوج نے کشمیریوں کو اپنی مکمل اخلاقی اور سفارتی حمایت کا یقین دلایا۔ پاکستان کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں دنیا کے مسلمانوں کے مسائل اور کشمیریوں کی حمایت میں بڑی پرجوش اور زبردست تقریر کی۔ پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نے مسلم اُمہ کو درپیش مسائل کے حل اور دنیا کے بیشتر خطوں میں مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کیلئے ایک مؤثر فورم قائم کرنے کااعلان کیا مگر بدقسمتی سے ملائیشیا میں ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان بوجوہ معاشی مشکلات اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی ناراضی سے بچنے کیلئے اس کانفرنس میں آخری وقت میں شرکت کرنے سے اجتناب کر گیا۔ ترکی، ملائیشیا، ایران اور قطر جو فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے بھی آواز بلند کر رہے تھے تو جب انہوں نے دیکھا کہ پاکستان ہی کشمیر کے معاملے پر عملی اقدامات اٹھانے سے بچ رہا ہے تو انہوں نے بھی عالمی فورمز پر کشمیریوں کیلئے آواز اٹھانی بند کر دی ہے۔ وہ مظلوم کشمیری جو گزشتہ 8 ماہ سے شدید لاک ڈائون کا شکار ہیں، ان کی آہ و بکا نے کرونا کے باعث دنیا کے 177سے زیادہ ممالک کو احساس دلا دیا ہے کہ کسی بھی وجہ سے جب لوگوں کی اکثریت کو گھروںمیں لاک ڈائون ہونا پڑتا ہے، معاشی مشکلات کا شکار ہونا پڑتا ہے، آزادی سے کام کاج کرنے اور اپنے حقوق کیلئے جدوجہد سے محروم ہونا پڑتا ہے تو تب انسان کے دل و دماغ میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے دکھوں کا عملی طور پر ضرور احساس ہو رہا ہوگا کہ آج ہم کرونا وائرس کے سبب گھروں میں لاک ڈائون سے گھبرا رہے ہیں تو وہ مسلمان جنہیں سخت ریاستی جبر، کرفیو، ریاستی ظلم و ستم، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، گھر میں ریڈ اور زبردستی گرفتاریوں اور شہادتوں کے ساتھ مجبورًا محصور ہونا پڑ رہا ہو اور جس کے خاتمے کا کوئی ٹائم فریم نہ ہو تو ایسے میں ان 80لاکھ بہادر، حوصلہ مند کشمیریوں کے دکھوں کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم اور ہماری ریاست محض زبانی کلامی ہی کشمیریوں کے حق میں نعرے بلند کرسکتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے ڈر سے وہ مجاہدین جو کشمیریوں کی عملاً مدد کرتے تھے ،ان سب کو ہم نے جیلوںمیں ڈال دیا ہے۔ پاکستان کا خیال ہے کہ جس طرح امریکہ افغانستان میں مذاکرات کی میز پر آکر طالبان سے سمجھوتہ کرچکاہے، اسی طرح اگر ہندوستان کی فوج کو مسلسل مزاحمت کا سامنا جاری رہاتو ہندوستان بھی کشمیر پر مصالحت کے لئے آمادہ ہو جائے گا مگر حقیقت میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ہم چونکہ کشمیریوں کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں، ہماری زبانی دھمکیوں سے ہندوستان کے متعصب ہندو زوروشور سے مودی کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی مظالم کا نشانہ زورشور سے بناناشروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے زبانی دعوئوں سے کشمیریوں اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے مصائب میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ آج مایوس کشمیری لیڈروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا ہمارے ارباب بست و کشاد کو کشمیر پالیسی میں جو تضادات ہیں، ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سرسری اور فرضی بیانات اور معمول کی پالیسیاں اور ردعمل کا طریق کار مفید ثابت نہیں ہوا۔ ہمیں ٹرمپ سے بڑی امیدیں تھیں مگر امریکہ ہمیشہ کشمیر کے مسئلے پر نیوٹرل رہتا ہے جس کی وجہ سے کشمیر پر سٹیٹس کو برقرار رہتا ہے اور یہ عملاً ہندوستان کے حق میں ہے۔ ان حالات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو سیکھنا چاہئے کہ ہماری فوجی پالیسیاں علاقائی زمینی مسائل کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں جس کی وجہ سے کشمیر کے مسئلے پر کوئی عملی پیشرفت دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ٹرمپ کے زبانی دعوئوں اور ثالثی کی پیشکشوں کو محض دیوانے کی بڑ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کونسا مودی کا بازو مروڑ کر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کہہ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی دبائو پر ہم کشمیر پر بار بار یوٹرن لے لیتے ہیں ۔ ایک ایسا اداراتی میکنزم موجود نہیں ہے جس کے پیچھے حقائق اور فیصلے کے مضمرات کی مکمل تصویر موجود ہو۔ کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے فیصلوں پر پوری بحث کی جائے اور وسیع تر تبادلہ خیالات سے سوچی سمجھی پالیسیاں تشکیل دی جائیں اور ان کے نتائج اور مضمرات کے پورے تجزیے کرکے مضبوط اور توانا قومی پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ آج ریاست پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں کشمیریوں کو قطعاً نظرانداز نہیں کرنا چاہئے جو آج بھارت کے ظلم و تشدد کے سامنے جوانمردی سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر گزشتہ 72سالوں سے جامد پوزیشن پر ہے۔ اس کی وجہ بھارت کے ایک سابق وزیراعظم واجپائی نے یوں بیان کی کہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان نے کبھی ٹھوس مذاکرات نہیں کئے ہیں۔ پاکستان اپنی پوزیشن پر تکرار کرتا رہتا ہے اور ہندوستان اپنی پوزیشن نہیں چھوڑتا لہٰذا آج ضروری ہے کہ کشمیر ہو یا افغانستان پاکستان ایک مضبوط سٹرٹیجی تشکیل دے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں قومی سطح پر مفاہمت کو فروغ دیا جائے۔ کشمیر کا گہرا تعلق ہماری قومی سلامتی سے ہے لہٰذا آج کے اس جدید جمہوری دور میں قومی سلامتی کو محض اداراتی عظمت اور شان و شوکت سے نہ ماپا جائے بلکہ اس میں حقیقی جمہوریت، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، آزاد میڈیا، قانون کی عملداری، آئین، صوبائی خودمختاری، معاشیات، انسانی حقوق، صحت عامہ اور تعلیم جیسے عناصر بھی شامل کئے جائیں۔ آج امریکہ ہو یا کوئی اور تیسری قوت، کشمیر کے مسئلے پر ہماری ثالثی نہیں کرا سکتی کیونکہ وہ بھارت کی بڑی معاشی منڈی کے ثمرات سے ہاتھ نہیں دھو سکتی ہیں لہٰذا ایسی کسی ثالثی کی کوئی امید نہیں ہے اور اگر کبھی امریکہ نے ثالثی کی بھی تو اس کا فائدہ ہندوستان کو ہی ہوگا اور وہ اسی طرح کا حل کشمیریوں کیلئے تجویز کرے گا جیسا فلسطین کے مسلمانوں کیلئے پیش کیا گیا ہے کہ 75فیصد علاقے پر اسرائیل کی بالادستی قبول کرلی جائے۔ ہمیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ ہی اپنی وابستگی کو مضبوط بنانا ہوگا کیونکہ یہی قراردادیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کا جائز طریقے سے احاطہ کرتی ہیں۔ 8جون 1988ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے پاکستان میں پائیدار امن کیلئے کشمیر کا ذکر کیا تھا۔ پاکستان کے خارجہ حکام کو بار بار اسی قرارداد کی تجدید کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کو کشمیریوں کی ہر طرح کی امداد جاری رکھنا ہوگی۔
٭…٭…٭