فضل الرحمن کا مجوزہ ملین مارچ حکومت کے اعصاب پر سوار ہو گیا
اسلام آباد ( محمد نواز رضا ۔ وقائع نگار خصوصی) جمعیت علما ء اسلام(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ کی جانب سے آئندہ ماہ ہونے اسلام آباد کی جانب ہونے والا’’ ملین مارچ ‘‘ حکومت کے اعصاب پر سوار ہے ۔ ایک طرف مجوزہ ملین مارچ نے پورے ملک کا موضوع گفتگو بن گیا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ٹرین مارچ عوام کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے پیپلز پارٹی نے عوام کو سڑکوں پر لانے کے لئے ’’نیٹ پریکٹس‘‘ شروع کر دی ہے عام تاثر یہ ہے آنے والے دنوں میں آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری پیپلز پارٹی کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دے گی ۔ سپریم کورٹ میں آج پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد محمد نواز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت ہو گی ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ جہاں میاں نواز شریف کو کوئی ریلیف دینے یا نہ دینے پر مبنی ہو سکتا ہے دونوں صورتوں میں عدالتی فیصلہ ملکی سیاست کا رخ تبدیل کرنے کا باعث بنے گا آج پاکستان مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گو مگو کی کیفیت سے نکل آئے گی وزیر اعظم عمران خان کی سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک روز قبل پریس کانفرنس بڑی اہمیت کی حامل ہے انہوں پریس کانفرنس میں اپنے مستقبل کے عزائم کا اظہار کیا ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے حزب اختلاف کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کی طرف ملین مارچ کی کال کو رد کردیا اور کہا ہے کہ پاکستان کے عوام بعض کرپٹ خاندانوں کو بچانے کے لئے سڑکوں پر نہیں نکلیں گے‘ کسی خاندان کی بدعنوانی کو بچانے کے لئے دنیا میں کبھی بھی کوئی عوامی تحریک برپا نہیں ہوئی‘ ہمارا احتجاج مسائل کے خلاف تھا جبکہ دوسری جانب اپوزیشن اپنی منی لانڈرنگ کے مقدمات پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن کو دھرنا دینے کے لئے کنٹینر دینے کی پیشکش کر کے صلح جوئی کا راستہ اختیار کرنے محاذ آرائی کا پیغام دیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے آنے والے دنوں میں ڈی چوک ایک بار پھر’’دھرنے ‘‘کا مرکز بننے والا ہے ملک تیزی سے شدید محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہا ہے آئندہ ہفتہ عشرہ میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی طرف سے ملین مارچ کے بارے میں واضح پالیسی کا اعلان متوقع ہے ۔