کرپٹ مافیا کی منہ زوری اور بے بس ضلعی انتظامیہ
ڈیرہ غازیخان کے مغرب میں بلوچستان کی بین الصوبائی شاہراہ پر آباد قصبہ سخی سرور گذشتہ دو دہائیوں سے سٹون کریشنگ پلانٹس کی وجہ سے پانچ سرکاری محکمہ جات کے کرپٹ مافیا کے لیے سونے کی کان بنا ہوا ہے۔ جب سے سی پیک منصوبہ جات پر کام شروع ہوا ۔ کریش اور پتھروں کی طلب میں بے پناہ اضافہ کی بناپر یہاں سے کریش کی ترسیل میں تین گنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اور اس وقت سخی سرور میں 127 اور تونسہ شریف میں5 سٹون کریشنگ پلانٹس کام کر رہے ہیں۔ فکر انگیز پہلو یہ ہے کہ تمام 132 پلانٹس غیرقانونی طورپر سرکاری کرپٹ مافیا کی ملی بھگت سے قائم کیے گئے ہیں۔ یہ پلانٹس ایک طرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن کر انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کررہے ہیں تو دوسری طرف روزانہ کروڑوں روپے کا ٹیکہ قومی خزانے کو لگا رہے ہیں۔ اِس کے عوض مُٹھی بھر کرپٹ مافیا مستفید ہو رہا ہے۔ جن کی نشاندہی کئی کالموں اور دی نیشن لاہور میں شائع ہونے والی نیوزسٹوریز میں کی گئی۔ جن میں بیان کردہ حقائق اب مستند طریقے سے سرکاری طور پر تسلیم کر لیے گئے ۔ جن بد عنوانیوں کی گئی اپنی تحریوں میں نشاندہی کی گئی تھی وہ تمام بد عنوانیاں اب ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان محمد ابراہیم جنید کے حکم پر انکوئری آفیسر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو محمد اقبال مظہرنے اپنی انکوئری پورٹ میں بیان کر دی ہیں۔ اِس انکوئری رپورٹ کا احوال کچھ یوں ہے کہ ڈپٹی کمشنر ابراہیم جنید جن کا تعلق اِسی دھرتی ہے اور وہ تمام امور سے بخوبی آگاہ ہیں اُنہوں نے سٹون کریشرز کے ذریعے پھیلنے والی ماحولیاتی آلودگی اور اِس سے ہونے والے نقصانات کے ضمن میں مورخہ 26دسمبر2017کوتمام متعلقہ محکمہ جات کی ایک میٹنگ کال کی اور ایک تفصیلی رپورٹ طلب کی ۔ بعدازاں یہ سلسلہ ایک مکمل انکوئری رپورٹ کی صورت میں ختم ہوا ۔ انکوئری آفیسر نے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ کرپشن اور لوٹ مار کی ایک الف لیلوی داستان ہے۔ اُس رپورٹ کے مطابق ادارہ تحفظ ماحولیات ، محکمہ مائنز و معدنیات، محکمہ اوقاف، لیبر ڈیپارٹمنٹ ، انڈسٹریری ڈیپارٹمنٹ اور میپکو کے بعض افسران و اہلکارغیر قانونی سٹون کرشنگ پلانٹس کے قائم کرنے میں ملوث ہیں اور یہ دھندہ اِن محکمہ جات کے کرپٹ مافیا کی بناپر جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ قصور وار ادارہ تحفظ ماحولیات ہے جو 2016تک خاموشی سے سوتا رہا۔ کرپشن کی بناپر بدحالی کا یہ عالم ہے کہ 2016سے بعد سے بھی تاحال اِس محکمہ نے اِن سٹون پلانٹس کی مانیٹرنگ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اِس ادارہ کے قصورواران کے خلاف مجرمانہ غفلت کی کاروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ میپکو کے کرپٹ مافیا نے محکمہ مائنز و معدنیا ت سے این او سی جاری کرائے بغیراِن پلانٹس کو بجلی فراہم کر رکھی ہے۔ اِسی طرح محکمہ معدینات نے سخی سرور روڈ پر پانچ مالکان پلانٹس کو جو این او سی جاری کیا ہے وہ بھی غیرقانونی طورجاری کیا گیا ہے کیونکہ محکمہ معدنیات نے ادارہ تحفظ ماحولیات سے اُن کا این اوسی جاری نہیں کرایا۔بعین ہی محکمہ اوقاف نے تین کریشر مالکان کو قیمتی ترین زمین بغیر این اوی سی کے فقط 980روپے ماہوار کرایہ ( لیز) پر مال مفت دلِ بے رحم کے اصول پر عطا کی ہوئی ہے۔ اِن تین کریشرز کے علاوہ محکمہ اوقاف کی وقف زمین پر 61کریشر پلانٹس نصب ہیں مگر محکمہ اوقاف نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔محکمہ اوقاف کے کرپٹ مافیا نے اربوں روپے کی سرکاری زمین بشمول14عدد دُکانات، 8خالی پلاٹ، 3پٹرول پمپس ، زائرین کمپلیکس اور 2صنعتی یونٹس کو فقط 78854روپے ماہوار معمولی کرایہ پر دے رکھا ہے۔ مارکیٹ میں ان پٹرول پمپس کا ماہوار کرایہ لاکھوں روپے میں بنتا ہے۔ اِسی طرح دکانات کے کرایہ جات 860 روپے، 1455 روپے اور خالی پلاٹس کے کرایہ جات740 روپے ،978 روپے اور 980روپے مقرر ہیں۔قیمتی زمین کے تقابل میں یہ کرایہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بنتا ۔ اِن کرایہ جات کو اوپن مارکیٹ کے مطابق کبھی بھی اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ کیونکہ در پردہ ماہانہ طور پر لاکھوں روپے کی رشوت وصول کی جاتی ہے اور اِن تمام امور کرایہ د اری کو دانستہ طور پر سرد خانے میں رکھا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ محکمہ اوقاف کا کرپٹ مافیا دربار حضرت سخی سرورؒکے عرس مبارک پر کیش بکس اور ٹھیکہ جات کی آمدن میں کماتا ہے۔ گذشتہ دوسالوں کا کیش بکس سال 2016میں 10535644 اور سال 2017میں 5881505روپے تھا۔ جبکہ امسال عرس تاحال 31مارچ تک جاری ہے۔ اِس سال زائرین سمیت مقامی لوگوں کو بندش عرس کا سامنہ کرنا پڑا ہے ۔ ضلعی حکومت کا اقدام دفعہ 144سو فیصد قابل مذمت ہے اور پولیس کا جواز سیکیورٹی بحوالہ خود کش حملہ دربار مورخہ 3اپریل2011بھی بے معنی ہے۔کیونکہ صدیوں پرانی روایات کا تحفظ اگر ممکن نہیں تو پھر پولیس اور باڈر ملٹری پولیس فورس کو ختم کر دینا چاہیے۔ درحقیقت اِن تمام حالات کی ذمہ دار کرپٹ مافیا کی کرپشن ہے۔ محکمہ اوقاف لوٹ مار تو چاہتا ہے مگر اپنی آمدن میں سے دربار سمیت زائرین پر خرچ نہیں کر نا چاہتا۔مقامی آبادی ماحولیاتی آلودگی کاشکوہ تو کرتی ہے مگر غیر قانونی قائم پلانٹس بند نہیں کرنا چاہتی۔ محکمہ اوقاف کے کرپٹ مافیا کا سب سے بڑا ذریعہ کمائی قبضہ مافیا کے ساتھ مُک مُکا ہے ۔ محکمہ مال ڈیرہ غازی خان کے ریکارڈ کے مطابق موضعہ سخی سرور تحصیل کوٹ چھٹہ میں بمطابق رجسٹر حقداران زمین 2010-11 کے محکمہ اوقاف کا کل رقبہ 31930ایکٹر، آبادی56ایکٹر، صوبائی گورنمنٹ کا کل رقبہ127ایکٹر ،زرعی اصلاحات کا 33ایکٹر اور ملکیت مالکان کل رقبہ 9572ایکٹر جبکہ موضعہ کا مجموعی رقبہ 41718ایکٹر ہے۔جبکہ اِسی کرپٹ مافیا کی مجرمانہ غفلت اور چشم پوشی کی بناپر مقامی باشند گان اور اقوام نے 18853کنال زمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ کرپٹ مافیا اِس ناجائز قبضہ پر اپنی مجرمانہ غفلت کو بورڈ آف ریونیو کے کھاتہ میں ڈال کر 1960سے بری الذمہ ہوتا چلا آرہا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ کرپٹ مافیا ایک طرف سرکاری زمین پر خود قبضہ کر رہا ہے تو دوسری طرف غیر قانونی سٹون کریشرز کے کاروبا ر میں مجرمانہ معاونت کر رہا ہے۔محکمہ اوقاف نے ان قبصہ مافیا کے خلاف فقط خانہ پُری کے لیے پہلی ایف آئی آر2004میں کرائی۔ اُس کے بعد سات سال تک زمینوں پر قبضہ ہوتا رہا مگر یہ خاموش رہے پھر 2011میں جب مسئلہ بہت بگڑا تو فقط 7 عددایف آئی آر درج کر دیں۔ پھر 2013میں 4عدد، 2016میں 7عدد اور گذشتہ سال 2017 میںفقط 5عدد ایف آئی آر درج کر ائیں ۔ معتبر ذرائع کے مطابق یہ ایف آئی آربھی خلوص نیت نہیں بلکہ ذاتی اور مالی مفادات کے پیش نظر درج کرائی گئی ہیں مگر اُن مقدمات پر جان بوجھ کر مذید قانونی کاروائی اور پراسیکیویشن نہیں کرائی۔ المختصر کرپٹ مافیاکی بناپر سخی سرور میں حکومت کو اب تک اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ محکمہ معدنیات کے ٹھیکہ جات سے لے کر سٹون کریشنگ پلانٹس کے غیر قانونی کاروبار اور زمین پر قبضہ کہانی کے پس پردہ کرپشن کی ایک الف لیلوی داستان رقم ہو چکی ہے۔ انکوئر ی آفیسر مظہر اقبال کی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنا ضلعی حکومت کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی اِس طاقتور قبیلہ پر ڈپٹی کمشنر ہاتھ ڈال سکتے ہیں کیونکہ اُن کو ضلع بھر کے مقامی سرداران کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ لہذا ضلعی حکومت اربوں روپے کے کرپشن کے اِس سکینڈل کو خود ڈائریکٹر جنرل نیب ملتان کے حوالے کر دے۔ تاکہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی بچ جائے۔
٭٭٭٭٭٭