عقدہ نئی سرد جنگ
اہل مغرب کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صدر ولادیمیر پوٹن چوتھی بار چھ سال کے لیے صدر بن چکے ہیں۔ وہ پہلے بھی ایک مقبول صدر تھے اور اہل مغرب کے انتخابی دھاندلی کے الزامات اور کمزور اپوزیشن یا حزب اختلاف کے لیڈرز کو دھمکانے کا رونا رونے کے باوجود اس بار بھی انتخابات میں انہیں 74 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ان کے ہر اقدام کو روس میں 80 فیصد سے زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل ہوتی رہی ہے۔ روسی عوام میں ان کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے روسی سپر پاور کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ عام روسی شہریوں کو یقین ہے کہ صدر پوٹن سچ بولتے ہیں اور وہ دوبارہ حالات خراب نہیں ہونے دیں گے۔
صدر پوٹن نے سیاست میں آنے سے پہلے کے جی بی چھوڑ دی تھی لیکن ان کی چال ڈھال پر آج بھی کے جی بی کے اثرات موجود ہیں۔ ہلیری کلنٹن اور صدر پوٹن ایک دوسرے کے خلاف تھے، ہلیری کلنٹن صدر پوٹن کی امریکی صدور سے ملاقاتوں کے باوجود انہیں کے جی بی ایجنٹ ہی سمجھتی رہی ہیں جبکہ صدر پوٹن کی جانب سے یہ موقف اپنایا جاتا رہا ہے کہ ہلیری کلنٹن روس کے خلاف میدان جنگ تیار کر رہی ہیں۔ یورپ میں نصب کیے جانے والے امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم کو وہ روس کے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صدر پوٹن نے صدارتی انتخابات سے چند دن قبل دونوں ایوانوں سے خطاب میں جہاں انہوں نے روسی عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا اعلان کیا وہیں اپنے نئے ہائیپر سانک ایٹمی میزائلوں اور ہتھیاروں کے نئے نظاموں کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا جس کے بعد سے امریکہ میں ہلچل مچ گئی ہے کیونکہ ان ہتھیاروں کے سامنے امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم ناکارہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے جسے بنانے پر امریکہ اربوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ صدر پوٹن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کوئی بھی ہم سے بات تک نہیں کرنا چاہتا تھا اور نہ ہمیں سننا چاہتا تھا لیکن اب وہ ہمیں سنیں گے۔ بعد ازاں ایک امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر پوٹن نے کہا کہ ہم نے یہ نظام امریکہ کی جانب سے 2002ء میں یکطرفہ طور پر اینٹی بلیسٹک میزائل ٹریٹی سے دستبرداری کے جواب میں بنائے ہیں۔ ہم نے ان سے کہا تھا کہ وہ اس معاہدے کو برباد نہ کریں تو انہوں نے کہا کہ ہم میزائل ڈیفنس سسٹم روس کے خلاف نہیں بنا رہے جس کے بعد ہم اپنی مرضی سے کام کرنے کے لیے آزاد ہوگئے۔ ہم نے 2002ء میں اپنے امریکی پارٹنرز کو اس بارے میں بتا دیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو مرضی آئے کرو۔ تو ہم نے جو سمجھا وہ کیا۔ تب شاید انہیں یہ لگا ہوگا کہ ہم کچھ نہیں کریں گے، تب ہماری معیشت، دفاعی سیکٹر اور فوج خراب حالت میں تھے۔ ہم نے اپنے امریکی پارٹنرز کویہ بتایا تھا کہ ہم کوئی میزائل ڈیفنس سسٹم نہیں بنائیں گے کیونکہ یہ بہت مہنگا ہے اور ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات تو امریکیوں کو بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ کیسا کام کرے گا۔ ہم نے تزویراتی توازن قائم رکھنے کے لیے اسٹرائیک سسٹم بنایا ہے۔
ان دنوں مغربی میڈیا میں روس اور صدر پوٹن کے خلاف پروپیگنڈا مہم جاری ہے۔ مغربی میڈیا میں قیاس کیا جارہا ہے کہ صدر پوٹن کی دولت 200 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جن میں کئی محلات بھی شامل ہیں لیکن روسی صدارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے اور جو محلات ان کی ذاتی ملکیت بتائے جاتے ہیں وہ درحقیقت سرکاری ملکیت ہیں۔ تاہم بدعنوانی کے الزامات عائد کرنے والے مغربی افراد یہ نہیں بتاتے کہ صدر پوٹن نے اپنی مبینہ 200 ارب ڈالر کی دولت کہاں چھپائی ہوئی ہے کیونکہ وہ موجودہ بین الاقوامی مالیاتی اور بینکاری نظام کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنا بدعنوانی سے جمع کیا ہوا مبینہ سرمایہ کسی آف شور کمپنی میں جمع کروا دیں گے جس کا انتظام کسی صیہونی کمپنی کے ہاتھ میں ہو یا وہ نیٹو کے کسی رکن ملک میں جائدادیں خرید لیں گے جن کے خلاف وہ اپنی کے جی بی کی ملازمت کے دور میں کام کرتے رہے تھے۔اس لحاظ سے اگر امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کو روسی مداخلت کا بلا ثبوت نتیجہ سمجھتے ہیں تویہ اقدام یقیناً امریکہ کی محبت میں نہیں کیا گیا ہے۔ ادھر شام اور ایران کی حمایت بھی اسی سرد جنگ کا حصہ ہے کہا جا رہا ہے کہ روس افغانستان میں بھی سرگرم ہے۔ ترکی میں امریکہ یا اسرائیل کی مبینہ ایما پر ہونے والی فوجی بغاوت ناکام ہوئی تو یہ کہا روسی انٹیلیجنس ایجنسی نے طیب اردگان کو اس بغاوت کے بارے میں بروقت اطلاع دے کر ناکام بنوایا تھا جس کے بعد سے روس اور ترکی کے کشیدہ تعلقات انتہائی دوستانہ تعلقات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
کرائیمیا اور یوکرین میں روسی مداخلت کی وجہ سے امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر پابندیاں عائد کر دی ہیں (شاید یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنا ان کا حق ہے)۔ ان پابندیوں کے تحت روس کے ریاستی مالیات، توانائی اور اسلحے کے سیکٹرز کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان پابندیوں کے تحت روسی اسٹیٹ بینک یورپی یونین میں طویل مدتی قرضے حاصل نہیں کر سکے گا۔ فوج کے لیے استعمال ہونے والی دوہری ٹیکنالوجی کی برآمدات پر پابندی عائد کر دی گئی اور مستقبل میں یورپی یونین اور روس کے مابین فوجی معاہدوں پر پابندی عائد کی گئی۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کسی بھی طرح کی آئل انڈسٹری کی ٹیکنالوجی کی برآمد پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ تاہم اسپیس اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی کو اس سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔ ممکن ہے وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ روسی انجینئرز نیوکلیئر اور اسپیس ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کوئی کام نہیں کر سکیں گے۔
روس پرعائد کی جانے والی مالیاتی پابندیوں کا پہلا اثر یہ سامنے آیا کہ صدر پوٹن نے امریکی صیہونی ساہوکار روتھس چائلڈ کے نمائندوں کو روس سے نکال دیا ہے۔ اپنے بینکاری نظام سے سوئفٹ سسٹم ختم کرکے ایک نیا متبادل نظام بنا لیا جس کے تحت دوسرے ملکوں سے تجارت اور ادائیگیاں کی جا سکتی ہیں۔ صہیونی ساہوکاروں کو یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی ملک ان کے سودی قرضوں کے جال سے نکل جائے ۔اس کے لیے جنگ بھی چھڑی جا سکتی ہے ۔ ان دنوں روس کے خلاف پروپیگنڈا مہم چل رہی ہے، ممکن ہے کہ چند دنوں میں چین کے خلاف بھی یہ سلسلہ شروع ہو جائے،کیونکہ یہ دونوں ملک بڑی تیزی سے موجودہ ڈالر زدہ عالمی معاشی نظام سے نکل کر معاشی خود مختاری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ روس اور چین اپنی کرنسی کو سونے کی قدرسے منسلک کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سونا جمع کر رہے ہیں ۔ اس وقت روس کے خزانے میں 1857 ٹن سونا موجود ہے جبکہ چین کے خزانے میں 1843 ٹن سونا موجود ہے۔ دوسری جانب امریکہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے خزانے میں 8171 ٹن سونا موجود ہے لیکن اس دعوے کی حقیقت پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں کیونکہ امریکہ نے کبھی اپنے سونے کے ذخائر کا غیر جانبدارانہ آڈٹ نہیں کروایا جبکہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی سونے کا معیار ناقص اور گولڈ بارز کا وزن پورا نہیں ہے لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ کے خزانے میں حقیقتاً کتنا سونا موجود ہے دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ میں دوسرے ممالک کا سونا بھی رکھا ہوا ہے۔ اس سے قبل صدام حسین تیل کی تجارت یورو میں لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی اپنی نئی سونے کی کرنسی میں تیل کی برآمدات کرنا چاہتے تھے لیکن ان دونوں ملکوں پر جنگ مسلط کر دی گئی تھی۔
رواں ماہ میں چین کے پیٹرو یوان کا آغاز ہو رہا ہے۔ برازیل اور یوراگوئے نے بھی اپنی کرنسیوں میں تجارت کا آغاز کر دیا ہے تاکہ امریکہ کے ڈالر سے منسلک ضوابط سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ سعودی عرب کا پیٹرو یوان قبول کرنا بھی ڈالر کے متبادل کرنسی لانے کے سلسلے کی کڑی ہے جبکہ بٹ کوائن بھی ڈالر سے منسلک بین الاقوامی بینکاری نظام کو چیلنج کررہا ہے۔ ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں سونے کے بدلے میں تیل کی تجارت شروع ہو جائے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ پیٹرو ڈالر اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو بچانے کے لیے چین اور روس سے براہ راست جنگ کا خطرہ مول لے گا؟ شاید اس کی نوبت نہیں آئے گی لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے جس کے تحت نئی جنگیں چھڑنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں ۔