قطر کو ہم سیف الرحمن کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ یا پھر ایک ڈاکٹر نے مجھے قطر کا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا نوجوان بیٹا پاکستان میں ایک غیر ملکی بنک کا اعلیٰ افسر ہے ا ور اب اس کی ترقی ہو گئی ہے اور وہ ریجنل پوزیشن پر قطر جانا چاہتا ہے، مگر اس کا شناختی کارڈ اس کے ویزے میں حائل ہو گیا ہے ا ور اس کا روشن مستقبل گہنا گیا ہے۔
امیر قطر دو روزپاکستان میں رہے، وہ کیاکچھ طے کر کے گئے،اس کا ریکارڈ سرکاری فائلوںمیں ضرور ہو گا۔کوئی غیر ملکی پاکستان کے دورے پر آئے یا ہمارے حکمران دوسرے ملک کا دورہ کریں تو یقین جانیے کہ ان دوروں کی کسی تفصیل کی بھنک عوام کو نہیں پڑنے دی جاتی، سب کچھ حکمران ٹولے تک محدود ہوتا ہے، کہنے کو یہاں جمہوریت ہے مگر عملی طور پر اقتدار چند ہاتھوں میںمرکوز ہے۔ وزیرا عظم، وزیر خزانہ اور وزیر اعلی پنجاب یہ ہے اقتدار کی تکون۔
یہی امیر قطر بھارت گئے ہیں تو مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ پالم ایئرپورٹ پر ان کا استقبال وزیر اطلاعات نے کیا۔ بھارت سے وہ کیا چاہتے ہیں، کیا دیں گے اور کیا لیں گے، سب کچھ بھارتی میڈیا کے ذریعے مجھ تک پہنچ گیا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امیر قطر نے کسی غیر ملکی صحافی کو کوئی انٹرویو دیا ہے تو وہ ٹائمز آف انڈیا کے نمائندے کو دیا گیا ہے۔
میں اپنے آپ کو بونا بونا محسوس کر رہا ہوں کہ امریکی صدر بھارت آئے لیکن پاکستان نہیں آئے حالانکہ امریکی عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے میں پاکستانیوںنے ساٹھ ہزار جانوں کی قربانی دی، بھارت نے ایک جان بھی نہیں گنوائی مگر امریکی صدر نے عزت افزائی کی تو بھارت کی۔ چین کو ہم اپنا قریبی دوست سمجھتے ہیں، اس وقت بھی چیف منسٹر پنجاب اسی ملک کے دورے پر ہیں، اب تو انگلیوں پر گننا ممکن ہی نہیں رہا کہ چیف منسٹر پنجاب نے چین کے اب تک کتنے دورے کئے ہیں مگر ان دوروں کا حاصل کیا ہے، اس کا علم کاتب تقدیر کوہی ہو سکتا ہے۔ اسی چین کے صدر پاکستان نہیں آ ئے مگر بھارت گئے۔ ہم دوش دیتے رہیں کہ عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے چینی صدر پاکستان نہیں آ سکے، مگر یہ دھرنا سارے پاکستان میں تو نہیں تھا، چینی صدر نور خان ایئر پورٹ پر اترتے، وہاں سے انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے مری لے جایا جاتا جو کہ اس ملک کا اصل دارالحکومت ہے، وہاں سارے مذاکرات ہو سکتے تھے۔ امریکہ میں بھی اہم مذاکرات کیمپ ڈیوڈ جا کر ہوتے ہیں۔ ایک بار ایرانی صدر بھارت گئے اور سیدھے لکھنو¿ چلے گئے، مجھے یاد ہے ہم نے نوائے وقت کے ادارتی کالموں میں اس کا سخت نوٹس لیا کہ ایرانی صدر نے بھارت جا کر فرقہ واریت کا مظاہرہ کیا، ورنہ جامع مسجد تو نئی دہلی میں موجود ہے۔ پچھلے سال سعودی عرب کے جانشین شاہ سلیمان نے پاکستان کا دورہ کیا، امیر کویت بھی آئے، اس سے پہلے یہ خبر آ چکی تھی کہ سعودی عرب نے خفیہ طور پر پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دان کئے ہیں۔ بحث یہ چل پڑی کہ کیوں دان کئے ہیں ، کسی نے کہا کہ سعودی عرب کو سیکورٹی خطرات ہیں اور وہ ہماری فوجی امداد کا خواہاں ہے، بس ا س مفروضے پر ہم نے طوفان کھڑا کر دیا، یہ کہا کہ ہماری فوج مرسنری نہیں ہے ، کرائے کی فوج نہیں ہے، کسی نے کہا کہ ہمیں دوسروں کے جھگڑوں میں فریق نہیں بننا چاہئے اور شاید سعودی عرب مایوس ہو گیا اور یہی مایوسی لے کر شاہ فہد دنیا سے چل بسے۔ امیر کویت کے دورے کے ساتھ بھی کم و بیش یہی ہوا۔ ہم نے گھن گرج سے کہاکہ یہ صاحب تو برسہا بر س سے اپنے کنج عافیت سے کبھی نکلے ہیں نہیں، اب کسی بڑی ضرورت نے انہیں پاکستان کا راستہ دکھایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کوئی پاکستان آئے تو ہم منہ بسور لیتے ہیں اور نہ آئے تو بھی ہم تنگ مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بھارت نے امیر قطر کی آﺅ بھگت کی ہے اور وہاں سے پل پل کی خبریں آ رہی ہیں۔ میرے لئے اہمیت اس انٹرویو کی ہے جو امیر قطر نے پہلی مرتبہ کسی کو دیا ہے، بھارتی صحافی نے جو سوال کئے ، اگر کسی پاکستانی لیڈر سے کئے ہوتے تو وہ مزید جواب دینے سے انکار کر دیتا، ٹی وی پر ہوتا تو مائیک پھینک کر اسٹیج سے اتر جاتا مگر داد دیجئے صاحب ا س نوجوان اور انتہائی تعلیم یافتہ قطری امیر کی کہ انہوں نے ہر سوا ل خندہ پیشانی سے سنا اور تفصیل سے ان کاجواب بھی دیا۔
پہلے سوالات ملاحظہ فرما لیجئے
آپ نئی بھارتی حکومت سے پہلی بار مل رہے ہیں، کیا انرجی کے علاوہ بھی کوئی بات کر نے کو ہے۔
کون سے سیاسی مسائل ایسے ہیںجو بھارت کے ساتھ زیر بحث لائیں گے۔
شام کا تنازعہ کیا ہے۔
داعش کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔
آپ کے علاقے میں دہشت گردی سے فرقہ واریت کو ہوا مل رہی ہے، آپ کو کس بات پر زیادہ تشویش ہے۔
ایران اور امریکہ کے مابین نیوکلیر معاہدہ ہو جائے تو آپ کے علاقے میں کیا تبدیلی واقع ہو گی۔
کہا جاتا ہے کہ ایران امریکی معاہدے کے بعد سعودی عرب پاکستان سے مل کر ایٹمی پروگرام آگے بڑھائے گا، کیا ایسا ہو سکتا ہے۔
قطر طالبان مذاکرات کی سہولت بھی بہم پہنچا رہا ہے۔آپ کیا امکانا ت دیکھتے ہیں۔
آپ ان خبروں پر کیا تبصرہ کریں گے کہ قطری عوام دہشت گردوں اور خاص طور پر داعش کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔
ان میں سے کئی سوالات پروٹوکول کے منافی ہیں، ایک بیرونی سربراہ مملکت سے ایسے سوالات نہیں پوچھے جا سکتے۔ کچھ سوالات ایسے ہیں جو کسی دوسرے سے کئے جانے چاہئیں، کچھ سوالات ایسے ہیں جو سیدھے سیدھے معزز مہمان کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مگر میں نے کہا نا کہ قطری امیر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، اس نے ہر سوال کو سنا اور خوشدلی سے اس کا جواب دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ انرجی اور گیس کے علاوہ بھی وہ بھارت سے معاملات کرنا چاہتا ہے۔ ساڑھے چھ لاکھ بھارتی مزدور، انجینیئرز اور ڈاکٹرز قطر میں کام کر رہے ہیں۔ ہمارے خطے میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، عرب بہار اب عرب انقلاب میں بدل گئی ہے۔ اگرچہ ابھی ہم سکون میں ہیں لیکن ہم ان تبدیلیوں کے دہانے پر بیٹھے ہیں۔ ان مسائل کا پرامن سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا۔ شام کی حکومت پرامن حل میں دلچسپی نہیں رکھتی، وہاں کے لوگ بشارالاسد کو بدلنا نہیں چاہتے تھے، وہ اپنی زندگی میں تبدیلی چاہتے تھے مگر اس نے عوام کے خلاف مہلک اسلحہ استعمال کیا۔ داعش اور دوسر ے دہشت گردوں کے بارے میں آپ لوگ غیر ملکیوں کی زبانی، خبریں اور تبصرے سنتے ہیں، ہمیں خود بھی آپس میں بات کرنی چاہئے، ایک دوسرے کوسننا چا ہئے۔ ہمیں ان عوامل کا جائزہ لینا چاہئے جو دہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ مذہب کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ القاعدہ کے خلاف ساری دنیا نے لڑائی کی ا ور کامیابی حاصل کی، اب نئے گروہ آ گئے ہیں، وہ زیادہ تشدد پسند ہیں، زیادہ خوفناک ہیں، مگر ہمیں عوام کی تالیف قلب کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ پرامن سیاسی راستہ اپنانا چاہئے۔ لوگوں کو سیاسی عمل میں شرکت کا موقع دیا جائے، انہیں آزادی دی جائے، ان کی عزت نفس بحال کی جائے۔ ایران اور امریکہ کے مابین معاہدے کی ہم نے ہمیشہ حمائت کی ہے۔ ایٹمی دوڑ ختم ہونی چاہئے اورا س دوڑ میں اسرائیل بھی شامل ہے، اسے بھی ضبط سے کام لینا چاہئے۔ یہ پالیسی نہیں چلے گی کہ کسی ایک کو کھلی چھٹی اور باقیوں پر پابندی۔ سعودی عرب خطے کا بڑا اور اہم ملک ہے، میں اس کی قیادت سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ قائدانہ کردارا دا کرے گی ا ور خطے میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی۔ مجھے اسکے ایٹمی عزائم کی کوئی خبر نہیںمگر ایک اہم ملک کی حیثیت سے یہ اس کا حق ہے کہ وہ کسی ایسے علاقائی یا عالمی معاہدے کے بارے میں ہر قسم کی تسلی کرے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن درہم برہم نہ ہو۔ جہاں تک قطری عوام کی طرف سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا سوال ہے تو اسے روکنے کے لئے ہم نے سخت قوانین بنا رکھے ہیں مگر دہشت گردوں کو فنڈنگ دنیا میں ہر کہیں سے ہو رہی ہے، اور بسا اوقات فنڈنگ کرنے والے نیک نیتی سے ایساکرتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کا پیسہ ا ور اسلحہ غلط ہاتھوںمیں چلا جائے۔ شام اور عراق میں جا کر دیکھ لیں وہاں مغربی اسلحے کی بہتات ہے۔ اس لئے کسی ایک کو دوش مت دیں۔
کالم طویل ہو گیا مگر اس میں بعض باتیں بے حد اہم ہیں اور وہ جو کہتے ہیں فرام دی ہارسز ماﺅتھ ہیں۔کیا قطری امیر نے یہ باتیں پاکستان میں بھی کسی کے ساتھ کی ہوں گی، شاید سیف الرحمن کا دعوی ہو گا کہ ا س کے ساتھ کی ہیں۔ مان لیتے ہیں۔حرج کیا ہے۔