وزیراعظم کا امریکہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کا تقاضا …… کیا نوازشریف کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں؟
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں بھارت ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے‘ وہ اس مسئلہ کو حل نہیں کرنا چاہ رہا‘ اس ہچکچاہٹ کی وجہ سے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے تیسری قوت کو شامل ہونا چاہیے۔ گزشتہ روز ہیگ میں تیسری جوہری سلامتی کانفرنس کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اب ضروری ہو گیا ہے کہ امریکہ جیسی کوئی تیسری قوت مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرے۔ انکے بقول اب جنگوں کے زمانے گزر گئے‘ اب مسائل مذاکرات سے حل ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی مسائل حل ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں قیام امن کیلئے امریکہ کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے‘ جو خطے میں قیام امن کی کوششوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نیوکلیئر سپلائر گروپ سمیت تمام برآمدی جوہری سمجھوتوں میں پاکستان کو شامل کرنے کا تقاضا کیا اور کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے‘ ہمارے جوہری اثاثے مکمل محفوظ ہیں‘ ہم جوہری عدم پھیلائو پر یقین رکھتے ہیں‘ جوہری دہشت گردی کے خطرے سے بچنے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف نے اس امر پر زور دیا کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کئے جائیں‘ جس پر جان کیری نے کہا کہ اس سے پہلے بھی مذاکرات شروع ہونے کے بعد ڈرون حملے نہیں کئے گئے‘ اب بھی ہم کوشش کرینگے کہ مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ ہوں۔ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات اور علاقائی امن و سلامتی سے متعلق دیگر امور پر بھی تبادلۂ خیال ہوا۔
ہیگ کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم میاں نوازشریف کیلئے امریکی صدر باراک اوبامہ کی جانب سے بھی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا جو انکے ساتھ والی نشست پر بیٹھے متعدد مواقع پر ان سے بات چیت کرتے رہے۔ اس دوران اوبامہ اور نوازشریف میں کیا عہدوپیماں ہوئے‘ اس کا کچھ عندیہ میاں نوازشریف کی میڈیا سے بات چیت سے ملتا ہے جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ کو کردار ادا کرنے کی عاجزانہ انداز میں اپیل کی اور ساتھ ہی یہ باور کرایا کہ اب جنگوں کا دور گزر گیا اس لئے پاکستان اور بھارت کے مابین بھی مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونے چاہئیں۔ اگر وزیراعظم کو خود اس امر کا احساس ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا چاہتا اور وہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے تو پھر اسکے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کے حل کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ ہماری شہ رگ کشمیر کو مستقل طور پر اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنا چاہتا ہے اور کشمیر کا ذکر ہوتے ہی اس میں جنگی جنون عود کر آتا ہے تو پھر جنگوں کے بجائے مذاکرات کے ذریعہ مسائل حل کرنے کے داعی میاں نوازشریف کو ہی بہتر معلوم ہو گا کہ پاکستان کی شہ رگ کو اسکے دشمن کے خونیں پنجے سے کیسے چھڑانا ہے کیونکہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی و استحکام کا تو دارومدار ہی مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے‘ بصورت دیگر ہمارا دیرینہ مکار دشمن بھارت تو کشمیر کے راستے آنیوالے ہمارے پانیوں کو مستقل طور پر روک کر ہمیں بھوکا پیاسا مارنے اور اس طرح ہماری ملکی سلامتی کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔ اگر وہ سیدھے سبھائو کشمیر پر اپنا قبضہ نہیں چھوڑتا اور کشمیری عوام پر ظلم و جبر اور اسی پس منظر میں پاکستان پر دراندازی کے الزامات کا تسلسل برقرار رکھتا ہے جس سے ہماری سلامتی پر ہمہ وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے تو پھر ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ملکی سلامتی کے تحفظ کی خاطر دشمن سے اپنی شہ رگ کا بزور قبضہ چھڑانے کی پالیسی اختیار نہ کرنا دفاعی حوالے سے ہماری کمزوری سے ہی تعبیر ہوگا۔ بے شک ہمارے ایٹمی طاقت ہونے کے نتیجہ میں ہی بھارت کو ہم پر ماضی کی طرح جنگ مسلط کرنے کی ہمت نہیں ہوئی مگر وزیراعظم میاں نوازشریف مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات ہی کی گردان کرتے رہیں گے اور امریکہ سے اس مسئلہ کے غیرجانبدارانہ حل کی توقع رکھیں گے تو جنگی جنون میں مبتلا بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر ہم پر چوتھی جنگ مسلط کرنے سے بھی گریز نہیں کریگا۔
علاقائی امن و سلامتی کی خواہش اپنی جگہ مگر اس خواہش کی تکمیل ملکی سلامتی کو محفوظ بنا کر ہی ہو سکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ بھارت امریکی آشیرباد سے ہماری سلامتی کیخلاف ہی اپنے عزائم کی تکمیل کرلیتا ہے تو پھر ہم علاقائی امن و سلامتی کی خواہش کس کیلئے کرینگے جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ بھارت سے کشمیر کا قبضہ چھڑائے بغیر پاکستان کے وجود کی تکمیل اور اسکی سلامتی کا تحفظ نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نوازشریف کو نہ جانے یہ خوش فہمی کیسے پیدا ہو گئی ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے غیرجانبدارانہ کردار ادا کریگا اور بھارت کی سائیڈ نہیں لے گا جبکہ یہ حقیقت تو پوری قوم پر واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ ہمارے مفادات کیخلاف بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارت نے امریکہ کیساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے ہماری سلامتی کیخلاف ہی تو کئے ہیں اس لئے وہ تو کشمیر پر اپنے تسلط سمیت ہماری سلامتی کیخلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کر رہا۔ اس تناظر میں اگر میاں نوازشریف کو بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ازخود کسی پیشرفت کی توقع نہیں جو حقیقت بھی ہے‘ تو انہیں امریکہ سے بھی ایسی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ یو این قراردادوں کی روشنی میں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوئی کردار ادا کریگا جبکہ یو این قراردادوں پر عملدرآمد کے سوا مسئلہ کشمیر کا کوئی دوسرا حل قابل قبول ہو سکتا ہے نہ پائیدار۔ بالفرض امریکہ اپنے اس کردار کی ادائیگی میں مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر بھارت کے حوالے کرنے کا تقاضا کرتا ہے تو کیا مسئلہ کشمیر کا یہ حل ہمیں اور کشمیری عوام کو قبول ہوگا۔ یہ درحقیقت کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کا بیرونی ایجنڈہ ہے اور یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران بھی مسئلہ کشمیر کے اسی حل پر صاد کئے بیٹھے ہیں جو نرم سے نرم الفاظ میں بھی قومی مفادات اور ملکی سلامتی کو پلیٹ میں رکھ کر دشمن کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم کے بقول بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کا معاملہ اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث مؤخر کیا گیا ہے حالانکہ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک ہمارے حکمرانوں کو بھارت کو یہ ’’سٹیٹس‘‘ دینے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے مگر وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر کو شاید بھارت کے ساتھ تجارت کی زیادہ جلدی ہے‘ جنہوں نے گزشتہ روز قوم کو بھارت کے ساتھ بجلی کی درآمد کے معاہدہ کی ’’نوید‘‘ سناتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت نہیں رکے گی۔ اگر اس ایجنڈے کے تحت بھارت کیساتھ مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں ہی ویزے میں نرمی اور راہداری کی سہولتیں دے کر تجارت کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے تو پھر مسئلہ کشمیر ازخود سرد خانے میں چلا جائیگا۔ یہ صورتحال پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر بھارتی تسلط عملاً تسلیم کرنے اور اس تناظر میں کشمیری عوام کا گزشتہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے جاری آزادی کشمیر کا سفر کھوٹا کرنے کے مترادف ہو گی جبکہ ہم بھیگی بلی بن کر دشمن سے اپنی شہ رگ کبھی نہیں چھڑا سکتے۔ علاقائی امن بے شک ہماری اپنی بھی ضرورت ہے مگریہ خواہش ملکی سلامتی کے عوض تو پوری نہیں کی جا سکتی۔ ملکی سلامتی کا تحفظ ہی ہماری بنیادی اور اولین ترجیح ہے جو مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر میاں نوازشریف سمجھتے ہیں کہ امریکی بھارتی خواہش کے مطابق کشمیر کا ٹنٹا ختم کراکے علاقائی امن و سلامتی کی ضمانت لی جاسکتی ہے تو انہیں اپنی اس سوچ سے رجوع کرلینا چاہیے کیونکہ ہمیں علاقائی امن و سلامتی سے پہلے ملکی سلامتی کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ سانپ سے دوستی کرکے اسے ڈسنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کیلئے سانپ کا زہر نکالنا ضروری ہے۔