غریبوں کی عزت نفس مجروح نہ کریں

کرونا کی وبا کے بعد ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے پاکستان کی معیشت کو بھی کرونا ہی لگ گئی ہے تیل بجلی گیس کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی کو جیسے پر لگ گئے ہیں۔روزبروز کی بڑہتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے اور وطن عزیز میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد۔بارہ کروڑ سے بھی اوپر چلی گئی ہے جس میں ہر روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اب لوگوں کیلئے دو وقت کے کھانے کا حصول بہت مشکل ہوتا جارہا ہے آٹے اور چینی کی قیمتیں برابر ہونے کو ہیں گھی اور کوکنگ آئل دن بدن لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں چاول دالوں کا ملنا غریبوں کیلئے بہت ہی مشکل بنا دی گئی ہیں۔آٹا۔گھی۔چاول۔چینی۔دالیں جو ہر گھر اور فرد کی ضرورت ہیں ان کی قیمتیں دن بدن لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں چاہئے تو یہ تھا کہ اور کچھ بھی نہ کرے۔تاہم بنیادی اور انتہائی اہم ضرورت کی اشیائ خوردونوش کی قیمتیں کم کرے وہ چند اشیاء جن کے بغیر زندگی مشکل نہیں نہ ممکن ہے ان کی خریداری میں عوام کو ریلیف ملنی چاہئے۔اور ان روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ان پر کڑی نظر کی ضرورت ہے لیکن اس جانب حکومت کا دیہان کیوں نہیں جاتی ہے جبکہ ہر حکومت نے لوگوں کو بھکاری بنانے کی کوشش کی اور لمبی لمبی قطاروں میں با پردہ سفید پوش خواتین کو سردی گرمی میں سڑکوں پر کھڑا کردیا۔اس وقت ملک کا صورت حال یہ ہے۔کہ ملک کا متو سط طبقہ سخت پریشانی کے عالم میں ہے کیونکہ۔اب پاکستان میں یہ بات مشہور ہے کہ غریب مانگ کر کھاتا ہے۔ امیر چھین کر کھارہا ہے۔ملک کا درمیانی طبقہ کہاں جائے۔کیونکہ ان کی سفید پوشی ان کو ماگننے سے روکتی ہے اور ضمیر ان کو چھیننے سے۔گو کہ حکومت غریبوں اور متوسط طبقے کو اشیاء خوردونوش کی سستے داموں فراہمی کیلئے ملک بھر میں ہزاروں یوٹیلٹی اسٹور قائم کردیئے ہیں جہاں پر غریبوں کی ریلیف کے لئے یوٹیلٹی کارپوریشن کے ذریعے اربوں کی سبسیڈی دی جاتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جواربوں روپے حکومت فراہم تو کرتی ہے آیا غریب اور متوسط طبقہ اس سہولت سے مستفید ہورہے ہیں؟ زیادہ تر جواب نفی میں ہوگا کیونکہ اکثر دیکھا گیا یوٹیلٹی اسٹور سے غریب کو تو کوئی فائدہ نہیں ملا۔البتہ جو اسٹور چلا رہے ہیں جو اہلکار اس میں کام کررہے ہیں ان کا بھلا ہوتا ہی ہے۔ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑاہی میں ہے۔یا پھر کچھ مخصوص لوگ جن میں کچھ سرکاری اہلکار۔چند دوکاندار جن میں ہوٹل۔بیکری اسٹور۔کریانہ اسٹور والے وغیرہ۔یا پھر ہر وقت ہاتھ میں کسی نہ کسی ویب کا لوگو ہاتھ میں لئے پھرنے والے اطائی صحافی شامل ہیں عام سفید پوش شہری کو آٹے چینی اور گھی کیلئے بیس بیس چکر لگاتے ہم نے دیکھا پھر کہیں جاکر ان کودوکلو گھی مشکل سے ملتا ہے اس وجہ سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری یوٹیلٹی اسٹور کا رخ نہیں کرتے ہیں ان کو معلوم ہے ملے گا کچھ بھی نہیں پھر کیوں لمبی قطاروں میں جاکر اپنا ٹائم بربادکریں عزت نفس بھی مجروح کریں۔اس طرح کی نا انصافی کی اطلاعات تو ہر جگہ ہر شہر سے آتی ہیں لیکن میرے اوستہ محمد شہر جو اب میونسپل کارپوریشن بن گیا ہے یہاں پر تقریبا ہر یوٹیلٹی اسٹور سے اس طرح کی شکایات کچھ زیادہ ہی آرہے ہیں اور ان شکایات کا ازلہ کرنے اور سننے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے پھر اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کو ایک چھوٹا تھیلا آٹے کا خوش قسمتی سے دیتے بھی ہیں تو ساتھ میں چند سو کی دوسری چزیں بھی ان کو تھما دیتے ہیں جن کی ان کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے اب ایک غریب جو بمشکل آٹے کا تھیلا خرید سکتا ہے اس کو ہارپک یا فینس کی کیا ضرورت۔ چینی گھی کے معاملے میں بھی یہی عمل کیا جاتا ہے۔اس طرح کے کارنامے دیکھ کر یو لگتا ہے کہ یوٹیلٹی کے نام پر عوام کے ساتھ دھوکہ کیا جاتا ہے۔ غریبوں کیلئے حکومت کی طرف سے فراہم کیا سبسیڈی غریبوں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔اس سبسیڈی کا فائدہ سب کو نہیں کچھ مخصوص قسم کے افراد ہی حاصل کر رہے۔ اربوں روپے کی سبسیڈی سے ہر علاقے میں کچھ مخصوص لوگ جن میں مندرجہ بالا بھی شامل ہیں یہی اس سے بہرہ مند ہوتے آرہے ہیں۔یوٹیلٹی اسٹور پر دو سو تین سو اشیائ پر سبسیڈی دینے کے بجائے ضرورت کی انتہائی ہم چند چیزوں پر ہی سبسیڈی دی جائے جن میں آٹا،گھی،چینی،چائے،دالیں،چاول وغیرہ پر مناسب ریلیف دے کر۔یہ تمام اشیاء اوپن مارکیٹ میں ہول سیلر کو دئے جائیں اورہر شہر میں ہر دکان پر فراہم کئے جائیں جب تمام بنیادی اشیائ ضرورت مارکیٹ میں وافرمقدار میں عام آدمی کو دستیاب ہونے کی صورت میں بلیک مارکٹینگ کا آپشن بھی ختم ہو جائے گا۔اس کے باوجود مقامی انتظامیہ کی جانب سے ان کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔اگر حکومت بضد ہے کہ عوام کو ریلیف یوٹیلٹی ہی کے ذریعے ہی فراہم کی جائے تو اس کیلئے سخت چیکنگ کے ساتھ اشیاء ضرورت کی۔ڈیمانڈ اور سپلائی پر بھی نظر رکھنا ہوگا نیز ان سے خریداری کرنے والے زیادہ تر مزدور محنت پیشہ افراد ہوتے ہیں جو صبح تو روزی کیلئے نکل پڑتے ہیں اگر یوٹیلٹی اسٹور کے سامنے گھنٹوں کھڑے ہوکر ان کو خوش قسمتی سے کچھ مل بھی جائے تو ان کا دھاڑی چلا جاتا ہے جبکہ ملازمت پیشہ افراد کو تنخواہ پہلی تاریخ کو ملتی ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان دنوں میں یوٹیلٹی اسٹور پر مطلوبہ چیزیں نہیں ملتی ہیں۔یوٹیلٹی اسٹور پر ان دنوں خاص کر پہلی تاریخ سے لے کر دس تاریخ تک ضرورت کی چیزیں وافر مقدار میں موجود ہوں۔ٹائم ٹیبل کا بھی خیال رکھا جائے کیونکہ مزدور دن بھر محنت مزدوری میں مصروف رہتا ہے لہذا۔انھیں رات ہی کے وقت فرصت ملتی ہے تو یہ اسٹور رات کو دیرتک کھلیں رہیں اگر تمام شاپس ممکن نہیں تو ہر علاقے میں ہفتہ وار ہو۔اشیائ کی پیکنگ میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کا قوت خرید ختم ہوگیا ہے لہذا بڑے پیکٹوں کے ساتھ چھوٹے پیکٹ بھی بنائے جائے۔یوٹیلٹی اسٹور پر کڑی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ صوبائی اور ڈویڑن کی سطح پرریجنل آفسرز ہر دوسرے تیسر ے ماہ ان کی کارکردگی دیکھنے اور لوگوں کی شکایات سننے ان کے ازالے کے لئے کھلی کچہریوں کا انعقاد کیا کریں۔اگر ان گزارشات پر توجہ دی گئی تو یوٹیلٹی اسٹور سے ہر غریب کو فائدہ پنچ سکتا ہے۔ ورنہ مخصوص لوگ تو اس سے فیضیاب تو ہورہے ہیں ہوتے رہیں گئے۔باقی عام آدمی کیلئے یہ صرف ایک اس جگہ سے سستی اشیاء خوردونوش ایک خواب ایک دھوکہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔