’کسے سچ کہیں، کسے جھوٹ جانیں ‘

اگرچہ اپریل سے قبل بھی جماعتِ مخالف کے لئے سوشل میڈیا کے مختلف صفحات پر سیاسی کدورتوں، نفرتوںاور بغض پر مبنی تحریروں، تصویروں اور فلموں کی سج دھج تضحیک بصارت‘‘ کا سبب بنتی رہی ہے،تاہم اپریل میں مسندِ اقتدار کی’’الٹ پلٹ‘‘ کے بعد تو جیسے ’’گُلوں‘‘میں رنگ بھر گئے ہیں۔’’دیوانگانِ خاص‘‘ جماعتِ مخالف کے ’’ شملہ پوشوں‘‘ کے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے بیانات کی فلمیں بنا بنا کر’’ طبعِ دشمناں‘‘ پرمسلسل نچھاورکر کے ’’ ثوابِ دارین کا حصول‘‘ یقینی بنا رہے ہیں۔مثلاً ایک ’’پگ پوش‘‘ کی گزشتہ حکومت کے دنوںمیں گفتگو کے الفاظ جو ویڈیو میں دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں،کچھ یوںپیش کیے گئے ہیں،’’صرف جوتیل کی قیمت ہے، ستر روپے فی لیٹر حکومت کو فی الفورکمی کرنی چاہیے۔ اور حکومت کوقطعاً کوئی نقصان نہیں ہوگا۔، مگر عام آدمی کو ریلیف ملے گا۔قیمتوں اور انفلیشن میں کمی آئیگی اور اس کا فائدہ ہوگا‘‘۔مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہونے کے چند روز بعد تیل کی قیمتوں کے موضوع پر اسی نابغۂ روزگار شخصیت کے منہ سے نکلنے والے ’’سنہری الفاظ ‘‘کچھ اس طرح پیش کیے گئے ہیں، ’’پچھلی حکومت نے تیل اور پٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھائیں، جبکہ عالمی منڈیوں میں ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔جہاںسے ہم امپورٹ کرتے ہیں ،وہاںان کی قیمتیں آسمان سے باتیںکر رہی تھیں اور کر رہی ہیں، بلکہ اب اور بھی بڑھ گئی ہیں،مگر اُنہوں نے قیمتیں کم رکھیں ‘‘۔بات ایک شخصیت کے ایک صریح متضاد بیان پر ختم نہیں ہوتی ،بلکہ جُملہ سیاسی جماعتوں کے ’’اوّل اماموں‘‘کے بیانات و تقاریر کی ہیئت و ساخت کا منظرقطعی طور پر اسی سے مماثل ہے۔
اگر بات سیاستدانوں تک محدود رہتی تو شاید قابلِ قبول بھی ہوتی کیونکہ اُن کا ’’شغلِ بے مثال‘‘ ہی جماعتِ مخالف کو ’’تگنی کا ناچ نچانا ـ‘‘ہے ،اور ان کے ہر صحیح کو غلط اور اچھے کو برا کہنا ہے۔لیکن کچھ’’خاص لوگ‘‘ جنہوں نے صحافت کے راستے سے دانشوری کاچغہ زیبِ تن کیا ہوا ہے، اور وہ’’ ببانگِ دہل سقراط کے ’’ اصولِ فلسفہ‘‘ کے علم بردار ہونے کے دعویٰ دار ہیں، اُن کی گفتگو،تحریروں اور تجزیوں پرکان دھرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ’’دربار اور متولیِٗ دربار‘‘ سے ’’نسبت خاص‘‘ کے باعث ’’ـــ نغمہ زنی ’’ اور ’’ قصیدہ گوئی ’’ کے جملہ’’ اوصاف ِ کمال ‘‘سے کماحقہ بہرہ ورہیں۔یہی لوگ دراصل قوم کے بڑے مجرم ہیں۔کیونکہ یہ نہ صرف حُرمتِ قلم کی عصمت دری کے سزاوار ہیں ۔بلکہ سماعتوں اور بصارتوں کو گمراہ کن آراء کی بھول بھلیوں میںبے یارو مدد گارچھوڑنے کے بھی کار پرداز ہیں۔ان سے غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی توقع رکھنا دن کو رات اور رات کو دن ماننے کے مترادف ہے۔
آج ہم اتنے پکے سچے سیاسی ہیں کہ اپنے ’’سیاسی اماموں‘‘ کے منہ سے نکلی ہرگالی پروا ہ و اہ اور سبحان اللہ کہتے نہیں تھکتے۔اُن کی ہر ــــ’’کَھچ‘‘کو طریقت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اُن کے اعلانات یا بڑھکوں کی معنوی حیثیت سمجھے اور تحقیق کیے بغیر، فداہونے کیلئے اپنی اولادوں،رشتوں،ناطوں کو خدا حافظ کہنے پر ہر لمحہ آمادہ خاطر رہتے ہیں۔کاش!اس محبت و عشق کا کم از کم نصف ہمیں اپنے دین اور نبی کریم کی سنتوں سے بھی ہوتا، توآج ہمارا معاشرہ اسلامی تشخص و معیارات کا فقید المثال اُجلا منظر پیش کر رہا ہوتا۔لیکن مکتب و مدرسّہ کے نصاب میں عملی طورپرــ’’ مطلوبہ سہولت ‘‘میسر ہی نہیں ہونے دی گئی۔جس کا نتیجہ یہ ٹھہرا ہے کہ بظاہر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جوہرِ تعلیم سے ناآشنا ہیں۔تعلیم جوحسنِ کردار،اخلاق اور دیگر اوصافِ حمیدہ کی تخلیق و تربیت کا منبع سمجھی جاتی ہے، فقط کاغذی ڈگریوں کے حصول تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
قیامِ پاکستان کے گزشتہ پچھترسالوں میں موقع پر ست اور مہم جُو، حب الوطنی کے جھوٹے دعووں کے تحت آگہی اور شعور سے عاری’’ریوڑ‘‘ کو مرضی کی لاٹھی سے ہانکتے چلے آ رہے ہیں۔جانے کب تلک ہانکتے چلے جائیھگے۔اُنکے قول و فعل کا تضاد تاریخ کے اوراق کا سیاہ باب ہے۔لمحہ لمحہ بدلتے بیانات ،سیاسی وابستگیاں اوراقتدار کی طمع سے لبریز ترجیحات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔آج حزبِ مخالف، حزبِ اقتدار کی طرف جن وجوہ کی بنیادپر طنز و تشنیع کے تیر چلا نا لازمی سمجھتی ہے ، آنے والے کل کو حصول اقتدار کے بعد ، روایتی ہتھ کنڈوں سے لیس ، انہی معاملاتِ ’’طنزوتشنیع ‘‘ کووقت کی مجبوری، حالات کی ناگزیریت اور عوام کی فلاح کا ضامن قرار دیتی ہے ۔
پچھتر سالہ پاکستان کی تاریخ میں جُملہ ادوار کا مختصر سا جائزہ مشترک گواہی دیتا ہے کہ آج تک بیانات، ترجیحات، اقدامات اور اعلانات میں یکسرکوئی تبدیلی نہیں آسکی۔ہر آنے والی حکومت جب اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو حلف اٹھانے کے فوراً بعد پہلی تقریر میں اس بات کا ماتم کرتی ہے کہ سابقہ حکومت نے ملکی معاشی حالات کا جنازہ نکال کے رکھ دیا تھا ۔انہوں نے یہ ذمہ داری ملکی خیر خواہی کے جذ بہ کے تحت مجبوراً اپنے گلے میں ڈال لی ہے ۔اس طرح اپنے اقتدار کے تمام سال اپنی ناکامیوں،نالائقیوں اور مہم جوئیوںکا مسلسل ذمہ دارسابقہ حکومتوں کو گردانتے گزار دیتی ہے ، اور عوام نہ چاہتے ہوئے بھی نیم یقینی،بے بسی اور لاتعلقی کے عالم میں سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبوررہتے ہیں ۔
وقت آگیا ہے کہ عوام کاذب تجزیہ نگاروں ،دولت میں تلے دانشوروں،بریانی اور نان کے رسیا فداکاروں، طمع و غرض کے غلاموںاورسیاسی کارکنوں کے دامِ فریب سے نجات کی پیش بندی کریں ۔اسکے ساتھ ساتھ ہر سیاسی جماعت کے ماضی ،اسکے منشور، تقاریر بر حزبِ مخالف اور ناکامیوں سے لبالب صفحات کی ورق گردانی کریں۔وطن کا مستقبل عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ عوام کو کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن سے اپنی تمام تر سیاسی اور ’’ جنونی لگن ـ‘‘اور اس لگن کے باعث اٹھائی گئی قسموں اور مانگی گئی دعائے خیر پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور انتخابات سے قبل ’’سقر اطی سوال ـ‘‘ اٹھانے کی عادت ڈالنا ہوگی، تاکہ آنے والی نسلوں کو روایتی تقر یریں نہ سننی پڑیں اور ناکامیوں کے انہی جوازات سے سماعتوں کو پراگندہ نہ کرنا پڑے ۔ سب سے بڑ ھ کر یہ کہ چاند کو زمین پراتار لانے کے خواب دکھا نے والے سمجھ جائیں، ـ ’’ عوام جاگ چکے ہیں‘‘۔
٭…٭…٭