دوسرا حملہ

اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے تازہ ترین صورتحال پر بات کر لیں حکومت نے کمال احسان کرتے ہوئے غریبوں کا خیال کیا ہے پہلی بار غریبوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے امیروں سے ٹیکس وصولی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور وہ بھی سپر ٹیکس کی صورت میں۔ ہائے، اس سادگی پر قربان ہونے کو دل کر رہا ہے۔ جن صنعتوں پر ٹیکس لگانے کی بات ہو رہی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے منافع سے ٹیکس دیں گے؟ وہ اس ٹیکس کی شرح کو پیداواری اخراجات میں شامل کرکے نئی قیمتیں متعارف کروائیں گے بلکہ اسی آڑ میں اپنا منافع بھی بڑھا لیں گے آخر کار بوجھ کنزیومر کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ آپ کو پتہ ہے کہ پچھلے چند ہفتوں میں سیمنٹ کی بوری میں 400 روپے اضافہ ہو چکا ہے سریا فی کلو 100 روپے بڑھ چکا ہے باقی روزمرہ کے استعمال کی اشیاء میں گھنٹوں کی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے جن صنعتوں پر 10فیصد سپر ٹیکس لگایا گیا ہے اب زرا ان کی مصنوعات کی قیمتیں چیک کیجیے گا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ چیزیں آوٹ آف کنٹرول ہو چکی ہیں ہم آج بھی حقیقتوں کا سامنا کرنے کی بجائے ان پر پردہ ڈالنے کی روائتی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں ادراک ہی نہیں کہ دنیا کس حد تک بدل چکی ہے ہم ہمیشہ عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں ان کو فرضی قصے کہانیاں سنا کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں فرضی بیانیے پر عمارتیں کھڑی کرتے ہیں اور ان فرضی بیانیوں کے ذریعے ان کے جذبات کیش کرواتے ہیں۔ ہمیں تو ملک ٹوٹنے کی خبر بھی بیرون ملک سے ملتی ہے۔
ہم یہاں اپنے عوام کو مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی باتوں میں الجھا رہے تھے اور ادھر ڈھاکہ فال ہو چکا تھا۔ خدارا عوام پر اعتماد کریں ان کو اپنا راز دان بنائیں آپکے آدھے مسائل حل ہو جائینگے۔ آپ بہت ساری بلیک میلنگ سے بچ جائینگے لیکن ہماری لیڈر شپ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے۔ آج بھی ہم مصلحتوں سے کام لے رہے ہیں حقیقتوں کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں لیکن اب یہ معاملہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے آپ کا جھوٹ اگلے لمحے ہی پکڑا جاتا ہے۔ ویسے ہم مسلمان ہیں جب کہ منافقتوں سے بھر پور ٹیکنالوجی کافر ہے۔ لیکن وہ جھوٹ نہیں بولتی۔ بات لمبی ہو گئی اصل موضوع کی طرف آتے ہیں پاکستان پر معاشی حملہ ہو چکا ہے اس سے قبل پاکستان دہشت گردی کے حملے کا سامنا کر چکا ہے یہ دراصل پاکستان توڑنے کی سازشیں ہیں آپ کو یاد ہو گا کہ اس نئی صدی کے آغاز سے ہی بین الاقوامی میڈیا پر تواتر کے ساتھ یہ خبریں آرہی تھیں کہ 2020ء اور 2025ء میں پاکستان کا جغرافیہ بدل جائیگا اس کیلئے پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب ہماری فورسز کے جوان وردی پہن کر بازاروں میں نہیں جا سکتے تھے بم دھماکے ہو رہے تھے لیکن اس خوفناک جنگ میں ہماری فورسز نے کامیابی حاصل کی اور پاکستان ایک حملے سے بچ گیا ۔اب دوسرا حملہ اس جنگ سے زیادہ خوفناک ہے اس حملے میں ایک طرف معاشی ابتری کے ذریعے عوام کو خانہ جنگی کی طرف لانا ہے دوسری طرف سیاسی عدم استحکام کے ذریعے افراتفری برقرار رکھنا اور تیسرا عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کروانا۔ اس میں کسی کو اچھا لگے یا برا لگے لیکن میں یہ حقیقت آپ لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ ایک وقت تھا جب جماعت اسلامی کو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کہا جاتا تھا پھر نہ جانے کیا ہوا وہ ہاتھوں سے نکل گئی اس سے قبل بھٹو کی پھانسی سے پیپلزپارٹی کے ورکرز کے ذہنوں میں بٹھائی جانے والی مداخلت آج تک دور نہیں کی جاسکی حالانکہ بھٹو کا سارا خاندان ختم ہو چکا ۔پھر اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھوں سے نواز شریف کا پودا لگایا اور دل وجان سے محنت کر کے اسے پروان چڑھایا لیکن جب انھیں اقتدار سے دور کیا گیا تو انھوں نے اپنے ورکرز کے دماغوں میں ایسا سبق ڈال دیا جو دوبارہ کئی دفعہ نوازے جانے کے باوجود نہیں نکل پا رہا ایک حافظ صاحب ہوا کرتے تھے وہ وطن کی خاطر خاموشی سے سب کچھ اپنے اوپر لے گئے تحریک انصاف تمام سابق کھلاڑیوں کے مقابلے میں تازہ دم قوت تھی اس کو بھی جس طریقے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ لاکھ اسٹیبلشمنٹ کا پانی بھرنے کی بات کرے لیکن ان کے فالوور سمجھتے ہیں کہ کیا ہوا ہے انکے اندر ایک دھواں اٹھ رہا ہے آج صورتحال یہ ہے کہ اقتدار کی خاطر ہر کوئی چاپلوسی کر رہا ہے لیکن درحقیقت معاملات بہت خراب ہو رہے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار عروج پر ہے گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے لیکن یہ صرف محسوس کرنے والے کو ہی پتہ ہے آگ کی تپش کتنی ہے۔ یہ چومکھی لڑائی ہے جو ملک کے تمام سٹیک ہولڈروں کے بغیر نہیں لڑی جاسکتی۔ یہ انائوں کو پروان چڑھانے کا وقت نہیں بلکہ انائوں کو قربان کر کے قربانی دینے کا وقت ہے۔ ہمیں کسی اور تجربہ کی طرف نہیں جانا چاہیے ہمیں عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور ان ہی کے پاس جانا چاہیے۔ عوام سب جانتے ہیں کیا ہوا ہے کہاں کہاں سے کس طرح ہوا ہے اندرون ملک کس کا کیا کردار ہے بیرون ملک کون کیا چاہتا ہے اور آگے چل کر کیا ہونے جا رہا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ماضی میں جو ہوا بھر کر پہلوان بنانے کا فن جانتے تھے وہ ہوا نکال کر اوقات میں رکھنے کا ہنر بھی رکھتے تھے لیکن آج حالات بہت مختلف ہیں یہ فارغ اوقات کے مشاغل ہوتے ہیں آج ہم حالت جنگ میں ہیں جس کے تقاضے بہت مختلف ہیں ہمیں آپس کی لڑائیوں میں الجھنے کی بجائے مل جل کر ملک بچانے کی جدوجہد میں اکٹھا ہونا پڑے گا۔