اب غلطی کی گنجائش نہیں!
1980/81 کی بات ہے کہ جوتے بنانے والی مشہور انٹرنیشنل کمپنی کے مالک پاکستان آئے، بہت بڑی کاروباری شخصیت ہونے کے ناتے ان کے لیے پروٹوکول اور دیگر سہولتوں کا خاص خیال رکھا گیا۔ ایوانِ صدر میں عشائیہ کا بھی اہتمام ان کے اعزاز میں کیا گیا۔ اگلے دن انہوں نے اسلام آباد کی ایک برانچ میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آبپارہ اس وقت اسلام آباد کی تقریباً سب سے بارونق جگہ ہوا کرتی تھی چنانچہ انہیں وہاں کی برانچ میں لے جایا گیا۔ منیجر اور دیگر سٹاف سے ملاقات ہوئی۔ کاروباری نوعیت کے سوالات بھی ہوئے۔ وہاں نکلنے سے قبل افسر مہمان داری نے آئے مہمان کو منیجر کے بارے میں بتایا کہ یہ صدر مملکت جنرل ضیاء الحق کے چھوٹے بھائی محمد اظہار الحق ہیں۔ مہمان کی حیرت کی انتہا نہ رہی وہ دو باتوں پر حیرا ن تھا ایک کہ ملک کے صدر کا چھوٹا بھائی ایک کمپنی کی عام سی برانچ میں ملازم اور دوسرا رات ایوانِ صدر کے مہمانوں میں یہ صاحب کہیں نظر نہیں آئے۔ وہ دونوں بھائیوں کی عاجزی اور انکساری سے بے حد متاثر ئے۔ اس کے بعد جب بھی سال دو سال بعد چکر لگاتے تو آبپارہ مارکیٹ کی برانچ میں ضرور جاتے، ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی مینجمنٹ کو ہدایات دیں کہ اظہار الحق تاحیات کمپنی میں رہیں گے۔ چند ماہ قبل وہ گرے اور ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اب انہیں اُٹھنے بیٹھنے میں دقت ہوتی۔ مگر انہیں اپنی نوکری سے محبت اور کمپنی سے عشق تھا۔ وہ پھر بھی جاب پر چلے جاتے، یہ دیکھ کر ان کی بیٹی نے پاکستانی ایم ڈی کو فون پر درخواست کی کہ ابو کو کمپنی سے فارغ کر دیا جائے، جواباً انہوں نے کہا یہ تو ہمارے بس میں نہیں، تاہم انہیں لمبی چھٹی پر بھیجا جا سکتا ہے۔ ابھی چند دن قبل ان کا جب انتقال ہوا تو یہ سارا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ جنرل ضیاء الحق کی شہادت ہو گئی محترم اعجاز الحق اور ڈاکٹر انوار الحق سیاست میں آ گئے مگر اظہار الحق صاحب نے انہیں والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی، بے پناہ شفت اور محبت، یہی وجہ کہ جب اظہار الحق کی وفات ہوئی تو نہ صرف ملک بھر سے ان دونوں بھائیوں کے پاس افسوس اور تعزیت کے لیے لوگوں کو آنا شروع ہوا بلکہ بیرون ممالک سے بھی جنرل ضیاء اور اعجاز الحق کے عقیدت مندوں، تعلق داروں اور چاہنے والوں نے وفود کی صورت میں آنا شرو ع کیا جو سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ پاکستان اس وقت بہت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے جو انتہا درجے کی اہمیت رکھتی ہے اس وقت ہمیں ملکی مفادات کے لیے فیصلے کرتے وقت ریجن کی بدلتی صورت کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہو گا۔ افغانستان سے امریکہ اپنی افواج بتدریج واپس بلا رہا ہے۔ بھارت بھی نت نئے انداز میں افغانستان کی حکومت کے ساتھ ساتھ طالبان اور دیگر قابل ذکر گروپس سے نہ صرف ملاقاتوں میں مصروف ہے بلکہ ان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مختلف طرح کی سہولتیں دینے کی بات کر رہا ہے گو اس میں ابھی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس نازک موڑ پر ہمارے فیصلے بہت اہمیت کے حامل ہوںگے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ افغانستان کے تقریباً 70 فیصد علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے جن میں جغرافیائی طور پر اہمیت کے علاقے بھی شامل ہیں۔ ان علاقوں میں ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کے ساتھ تعلیم، صحت اور انصاف کے شعبے بھی طالبان کے کنٹرول میں ہی جہاں لوگ خوش اور مطمئن ہیں، حکومت کا کنٹرول تقریباً 30 میل کے ایریا میں ہے اور وہ بھی لرزتااور کانپتا ہوا۔ اپنے غیر ملکی آقائوں کی مدد کے بغیر سرکاری رہائش گاہوں سے نکلنا بھی مشکل۔ ایسے حالات میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کو چاہئیے کہ وہ طالبان اور دیگر گروپس کی اعلیٰ لیڈر شپ سے بامعنی بات چیت کریں اور بقول ان کے غیر اہم لوگوں سے مذاکرات پر زور کم کر دیں۔ ان قوتوں کا کہنا ہے کہ اگر امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد ترکی کی فوج آتی ہے تو انہیں تحفظات ہوں گے۔ اگر تو ترکی کی فوج امہ مسلمہ کی نمائندگی کرے تو درست ورنہ اس کا کردار نا قابل قبول ہو گا۔ دوسری بات کہا یہ جاتا ہے کہ طالبان شدت پسند ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا درست نہیں ان کے زیر اثر علاقوں میں تمام اقلیتیں جن میں اہل تشیع، اسماعیلی فرقے کے لوگ، سکھ اور دیگر نہایت پرامن طریقے سے رہ رہے ہیں اور انہیں کوئی مسئلہ نہیں، ان کے بقول پرامن، محفوظ اور ترقی کی راہ پر گامزن افغانستان پاکستان کے لیے بھی بہت موزوں ہو گا۔ اور اس موقع کو گنوانا پاکستان کی شاید غلطی ہو گا۔ اگر یہ دونوں قوتیں فیصلہ کرلیں کے وسیع تر مفاد کے لیے ایک دوسرے کی زمینیں استعمال نہیں ہوں گی تو دہشت گردی کو نہ صرف ختم کیا جا سکتا ہے جبکہ بھارتی عمل دخل بھی نہ ہونے کے برابر ہو جائے گا۔ افغانستان نے یہ ثابت کر دیا کہ انہیںشکست دینا بہت مشکل ہے اب جبکہ انٹرنیشنل لابی افغانستان کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے اور ان کا اگلا ہدف یقینی طور پر پاکستان ہو گا۔ ایسے میں آپس میں سر جوڑ کر بیٹھنا زیادہ عقلمندانہ فیصلہ ہو گا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ خوب جانتی ہے کہ ہم نے پہلی غلطی جنیوا کارڈ سائن کر کے کی جبکہ دوسری غلطی 9/11 کے وقت ہوئی۔ اب شاید تیسری با ر غلطی کی گنجائش نہیں ، ہر ایک قدم انتہائی احتیاط سے اٹھانا ہو گا۔ جنرل ضیاء کی ابھی بھی افغانستان میں بہت عزت اور پذیرائی ہے، وہاں عوام اور بالخصوص تمام بااثر گروپس محترم اعجاز الحق کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جب کہ ان کے ساتھ خصوصی لگائو بھی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی خواہش ہے کہ ایسے لوگ افغانستان سے معاملات طے کرنے آگے آئیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹیں آئیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمارے لیے بہت اچھا کرے۔ آمین