حکومتی فیصلے ملکی سلامتی، خود مختاری اور بقاء کیلئے خطرہ بن چکے ہیں، آل جماعتی کانفرنس(اےپی سی) کا مشترکہ اعلامیہ جاری
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی میزبانی میں اپوزیشن کی کثیرالجماعتی کانفرنس وفاقی دارالحکومت میں ہوئی، جس میں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وفود نے شرکت کی۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ممکنہ طور پر حکومت مخالف احتجاجی تحریک کو ایک پلیٹ فارم سے شروع کرنے، بجٹ کی منظوری رکوانے اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے کثیرالجماعتی کانفرنس منعقد ہوئی۔
بجٹ پر ووٹنگ کے عمل کے دوران اپنے اراکین قومی اسمبلی کی موجودگی یقینی بنانے کے نقطہ نظر کے ساتھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جے یو آئی ف کی میزبانی میں مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کی۔
کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے وفد کی قیادت شہباز شریف جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شرکت کی۔
خیال رہے کہ کانفرنس سے قبل قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس ہوا تھا، جس کی صدارت قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کی، اس اجلاس میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، مولانا اسعد محمود اور دیگر شریک ہوئے تھے، ان اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری کا کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
کثیرالجماعتی کانفرنس میں عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما بھی شریک ہیں، تاہم اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے والی جماعت اسلامی نے پہلے ہی خود کو اس کثیر الجماعتی کانفرنس سے دور کرلیا تھا جبکہ اسی طرح حکومتی بینچوں پر بیٹھنے کے باوجود اپوزیشن اجلاسوں میں شریک رہنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کانفرنس میں شرکت سے متعلق تذبذب کا شکار تھی، تاہم بعد ازاں انہوں نے اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
کانفرنس میں جو اہم رہنما شریک ہیں ان میں مسلم لیگ (ن) سے شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق اور راجا ظفر اللہ ہیں، پیپلزپارٹی کے اہم رہنماؤں میں یوسف رضا گیلانی، شیری رحمٰن، رضا ربانی، قمر زمان کائرہ، فرحت اللہ بابر ہیں، اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی سے اسفند یار ولی خان، میاں افتخار اور امیر حیدر خان ہوتی ہیں جبکہ نیشنل پارٹی سے ان کے صدر میر حاصل خان بزنجو،پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب شیرپاؤ و دیگر شامل ہیں۔
شہباز شریف کی رہبر کمیٹی کے قیام کی تجویز
کانفرنس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے ’رہبر کمیٹی‘ کے قیام کی تجویز دی، جو میثاق معیشت اور قومی چارٹر تیار کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں موجودہ بجٹ سے زیادہ بدترین بجٹ نہیں دیکھا، حکومت کے ہاتھ روکنے کے لیے اسمبلی کے اندر اور باہر کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
مولانا فضل الرحمٰن کی اجتماعی استعفوں کی تجویز
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائیاں جانبدارانہ ہے، وقت آگیا ہے کہ ہم یک زبان ہو کر فیصلے کریں۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے کانفرنس میں اجتماعی استعفوں کی تجویز دی گئی اور کہا گیا کہ اس پر بھی بحث ہونی چاہیے۔
ذرائع کے مطابق کثیرالجماعتی کانفرنس میں شریک بڑی جماعتوں نے اسمبلیوں سے استعفوں کی تجویز پر تحفظات کا اظہار کیا۔
اے این پی کا چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ
ذرائع نے مزید بتایا کہ کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جس پر اے این پی نے انہیں ہٹانے کی تجویز دی۔
ذرائع کے مطابق اسفندیار ولی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، اپوزیشن نے یہ اقدام نہ اٹھایا تو عوام اعتماد نہیں کرے گی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے اس حوالے سے کہا کہ اجتماعی استعفوں، چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی، حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک سمیت دیگر امور پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کی تجویز سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی میں اے پی سی میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں گے، جو آئندہ کے لائحہ عمل کا تعین کرےگی۔
اسمبلیوں سے استعفوں پر عدم اتفاق
آل پارٹیز کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر اسمبلیوں سے استعفوں پر اتفاق نہ ہوسکا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پختونخوا میپ نے استعفوں کی حمایت کی۔
اس حوالے سے تجویز کنندگان نے کہا کہ استعفیٰ دینے سے حکومت شدید ترین دباؤ میں آجائے گی۔
ذرائع نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) استعفوں کی فی الوقت حامی نہیں، دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ ہمیں اتنی جلدی حکومت کو مظلوم نہیں بننے دینا چاہیے۔
دونوں جماعتوں نے کہا کہ استعفے ایک آپشن ضرور ہے لیکن یہ آخری آپشن ہونا چاہیے، ہمیں پہلے مرحلے پر ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ احتجاج اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے جو حکمت عملی مرتب کی جائے گی، اسے قبول کریں گے۔
ذرائع نے کہا کہ حتمی فیصلہ تمام تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے متفقہ اعلامیہ میں شامل کیا جائے گا،
ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں انہیں سلیکٹ کرنے والوں سے ہے، مریم نواز
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا اقدام اٹھائیں کہ عمران خان تو جائے لیکن ایسا کوئی شخص پھر نہ آسکے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت بدحالی کا شکار ہے اور عوام ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، آج اگر صحیح فیصلے نہیں کیے تو قوم ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
مریم نواز نے کہا کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں انہیں سلیکٹ کرنے والوں سے ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں ٹھوس فیصلے ہونے چاہئیں، 70 سال میں ریکارڈ قرضہ اس حکومت نے 11 مہینوں میں لیا ہے، عوام کو اپوزیشن سے بہت توقعات ہیں، اگر قابل عمل لائحہ عمل عوام کے سامنے نہ رکھا تو مایوسی بڑھے گی، میں تجویز دیتی ہوں کہ نیب کی قید میں تمام اسیروں کو سیاسی قیدی قرار کیا جائے تحریک انصاف کے لئے انصاف کا ایک ترازو ہے اور اپوزیشن کے لئے دوسرا، ہم ایسے احتساب کے آگے کیوں جھک رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) پنجاب سے، پیپلزپارٹی سندھ سے، مولانافضل الرحمٰن اور اے این پی پختونخوا سے اور بلوچستان سے نیشنل پارٹی اور اچکزئی آکر اسلام آباد بند کردیتے ہیں تو اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔
مضبوط فورم تشکیل دے کر فیصلہ کرنا ہوگا، حاصل بزنجو
نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بزنجو نے کہا کہ جب تک اس ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بنایا جائے گا ملک ترقی نہیں کرسکتا، نیب انہی اداروں کے ماتحت کام کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مضبوط فورم تشکیل دے کر فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اسفندیار ولی خان
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفندیار ولی نے اپوزیشن کی اے پی سی میں تجویز پیش کی کی چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، اپوزیشن نے صادق سنجرانی کو ہٹانے کا اقدام نہ اٹھایا تو عوام اعتماد نہیں کرے گی۔
حکمرانوں کا ایجنڈا گھناؤنی سازش کا حصہ، اعلامیہ
آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اے پی سی میں شامل سیاسی جماعتیں ملک کی ڈگمگاتی معیشت کو بچانے، ملکی سلامتی، اسٹریٹجک اثاثے اور سی پیک جیسے منصوبوں کو دشمن قوتوں سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ملکی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ حکومت 11 ماہ میں کارکردگی کے اعتبار سے اپنی نااہلی پر مہر ثبت کر چکی ہے۔ پاکستان میں عوام کے نمائندہ حکمران موجود نہیں، نام نہاد حکمرانوں کا ٹولہ 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے بعد مسلط ہوا، ان انتخابات کو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مسترد کرچکی ہیں۔ حکمرانوں کا ایجنڈا ملکی مفادات کی بجائے کسی گھناؤنی سازش کا حصہ ہے۔ ملکی حالات بہت بڑا سکیورٹی رسک ہیں، حکومت کے فیصلے ملکی سلامتی، خود مختاری اور بقا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ اس سے قبل کہ ملک کسی سانحہ کا شکار ہو، ہمیں متفقہ بیانیہ پر متحد ہونا ہوگا۔