زوال ہمیشہ ہماگیر ہوا کرتا ہے۔ ٹائی ٹینک جب غرق آب ہوتا ہے تو ہر چیز ڈوب جایا کرتی ہے۔کسی بھی معاشرے کی اقتصادیات ہی اس کی سماجیات کے معیار کا تعین کرتی ہیں۔ورلڈ کپ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کا غیر جذباتی ، حقیقت پسندانہ اور بلا تعصب جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قومی ٹیم بیٹنگ ،بائولنگ،فیلڈنگ اور منصوبہ سازی سمیت کسی بھی شعبہ میں سیمی فائنل تک رسائی کی صلاحیت سے محروم ہے۔ 1992 ورلڈ کپ کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے ،کیونکہ کسی فلسفی کے بقول ’’ ہنر سڑکوں پر تماشا کرتا ہے اور قسمت محلوں میں راج کرتی ہے‘‘۔ بھارت کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ اپنی نااہل بیٹنگ لائن کی ناکامی کا نفسیاتی خوف تھا، حالانکہ چیمپئن ٹرافی میں پہلے بیٹنگ کرنے نتیجے میں ہی فتح پاکستان کا مقدر بنی تھی۔اس شکست کے نتیجے میں پاکستانی کھلاڑیوں کوجس نہایت منفی تنقید حتہ کہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس کی بڑی حد تک ذمہ داری ہمارے تقریبا ہر چینل پر سجی دوکان میں براجمان نام نہاد کرکٹ پنڈتوں پر بھی ہے۔جو قوم کی توقعات کو بلاوجہ آسمان تک بلند کرنے اور اپنے نادر مشوروں سے ٹیم مینجمنٹ کو نوازنے میں اس حد تک ریڈ لائن کراس کرتے رہے کہ شکست کے بعد تماشائی توقعات کے غبارے کے یکا یک پھٹ جانے سے آپے سے باہر ہو کر دنیا ختم ہو چکی جیسی نرگسیت کا شکار ہو گئے۔محض ریٹنگ حاصل کرنے اور مارکٹنگ بہتر بنانے کے چکر میں معصوم سادہ دل پاکستانیوں کے جذبات سے وہ کھلواڑ کیا گیا کہ خدا کی پناہ!رفیع خاور کا شعر اس صورت حال کی بر محل عکاسی کرتا ہے۔
خدا بناتا ہوں پہلے ، پھر اس کا ڈر بناتا ہوں
میں جتنا نیک ہوں ، اتنا ہی شر بناتا ہوں
دراصل ہماری قومی زندگی میں خوشیوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ ہم رائی کا پہاڑ بنا کر زبردستی اس سے خوشی کشید کرنے کی لاشعوری خواہش رکھتے ہیں۔جذباتیت سے اوپر اٹھ کر جائزہ لیں تو قومی ٹیم بارہ مسلسل میچ ہار کر ورلڈ کپ میں شریک ہوئی ۔جہاں اسے وارم اپ میچ میں دسویں نمبر پر موجود افغانستان کے ہاتھوں بھی ہزیمت اٹھانی پڑی۔بیٹنگ کے شعبے میں کمزوری روائتی ہیں اس مرتبہ انگلستان میںبارشوں کی کمی اور خشک پچ کے باعث سوئنگ کی عدم موجودگی سے بیٹنگ لائن کو سہارہ ضرور ملا لیکن مڈل آرڈر میں شعیب ملک تین میچوں میں محظ آٹھ رنز بنا پائے ، بابر اعظم پاکستانی ٹیم کے کوہلی کہلاتے ہیں لیکن اچھی ٹیکنیک کے باوجود ٹمپریمنٹ کی کمی کے باعث پچاس ساٹھ رنز کو بڑی اننگ میں ڈھالنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔فخر زمان دھواں دھار بیٹنگ کی شہرت رکھتے ہیں لیکن دیگر ٹیموں نے ان کی شاٹ گیندوں پر کمزوری کو بھانپ لیا ہے اور لیگ سائیڈ پر بائولنگ کروا کر ان کے سڑوک کی رینج کو محدود کر ڈالا ہے۔سرفراز ایک اچھے کپتان ضرو ر ہیں لیکن ان کی بیٹنگ فارم انہیں دھوکہ دے چکی ہے اور وہ محض ماضی کا سایہ دکھائی دیتے ہیں۔عابد علی اونچی دوکان پھیکا پکوان ثابت ہوئے۔حارث سہیل اور عماد وسیم شعیب ملک اور حفیظ کے ’’تجربے‘‘ کے باعث ٹیم میں مستقل جگہ نہیں بنا پائے۔بائولنگ کے شعبے میں وہاب اور عامر پاکستان ٹیم کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دے رہے ہیں۔لیکن حسن علی نے خاصا مایوس کیا ہے۔ شاہین آفریدی کبھی ہیرو اور کبھی زیرو دکھائی دیتے ہیں تو بیچارے محمد حسنین کی ناتجربہ کاری اس کے آڑے آ رہی ہے۔بحر حال جنوبی افریقہ کے خلاف چھ کیچ گرا کر بھی میچ جیت لینا قسمت کی دیوی کے مہربان ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پاکستان ٹیم کی فیلڈنگ نہایت ناقص درجے کی ہے اور وہ اب تک اس ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ سولہ کیچ گرانے کا انوکھا ریکارڈ بنا چکی ہے۔’’پنچ ہٹر یا فنشر ‘‘کی کمی ٹیم کے بڑا سکور بنانے میں آڑے آ رہی ہے۔پاکستان ٹیم ٹیکنیک کے لحاظ سے ابھی بھی نوے کی دہائی کی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔بال کو مسلسل بلاک کرنا اور پھر یکدم چھکا لگانے کی کوشش ہمارا طرہ امتیاز رہا ہے۔سب سے زیادہ ڈاٹ بال کھیلنے کا ناپسندیدہ طرز عمل بدستور جاری ہے۔بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی،پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کرکٹ کی ایک سو چالیس سالہ تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ٹی وی پر بیٹھے پنڈت نوکری کی تلاش میں اب مکی آرتھر کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ خدا خیر کرے ہماری ٹیم اپنی آنیوں جانیوں سے باب ولمر کی جان پہلے ہی لے چکی ہے۔ناضرین کو بھی اب بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیے ۔ پاکستان کے قومی جھنڈے والا کوٹ زیب تن کئے ہر کھلاڑی ہمارا قومی ہیرو ہے اس کے کھیل پر تنقید ضرور کریں لیکن اس کی ذات کو ہدف تنقید بنانا چنداںصحت مند روش نہیں۔کھلاڑی ہماری طرح انسان ہوتے ہیں دیوتا یا اوتار نہیں۔ قومی میڈیا کو اس سلسلے میں غیر ضروری ہیجان انگیزی اور سنسنی پھیلانے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ یہ محض ایک کھیل ہے جس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اسے قومی عزت اور غیرت سے جوڑنا کوئی زیادہ مناسب عمل نہیں۔نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔ قوموں کی عزت کرکٹ میچ جیتنے سے نہیں بلکہ عالمی برادری میں ایک مضبوط معاشی اور اخلاقی طاقت بننے سے حاصل ہوتی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024