نیا کچھ بھی نہیں

ہندوستانی معاشرے کے دبے کچلے، پسے ہوئے اور پس ماندہ طبقے کے لوگ ’’دلت‘‘ (Dalit) کہے جاتے ہیں۔ گاندھی نے انہیں ’’ہریجن‘‘ کا نام دیا تھا۔ سرکاری طور پر انہیں ’’شیڈو کاسٹ‘‘ کہا جانے لگا۔ دلت دراصل ہندوؤں کی نچلی ذات (Low cast) سے تعلق رکھنے والے وہ غریب، کم زور اور پچھڑے ہوئے لوگ ہیں جنہیں ہندو طبقۂ اشرافیہ نے سماجی، تہذیبی اور مذہبی سطح پر الگ تھلگ کر کے رکھ دیا ہے۔ اونچی ذات کے ہندوؤں یا طبقۂ اشرافیہ میں برہمن، چھتری اور ویش شامل کیے گئے تھے اور نچلی ذات کے ہندو شودر کہلاتے تھے جنہیں اونچی ذات کے ہندوؤں کی خدمت گزاری پر مامور کیا گیا تھا۔ ان ذاتوں کے علاوہ ہندوؤں کا ایک اور طبقہ بھی تھا جسے ذات سے باہر (out cast) سمجھا جاتا تھا اور یہ ’’اچھوت‘‘ کہلاتا تھا۔ یہی اچھوت اور شودر آج دلت ہیں۔ گو ہندوستان میں ایک دلت کو ملک کا صدر بنا دیا گیا ہے لیکن دلت بھی ان کی پارٹی کی پسندیدہ فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ دراصل ان کی جماعت کو چلانے والی طاقت آر ایس ایس کا ایجنڈا یہی ہے کہ غیر ہندوؤں کی جڑوں کو کاٹ دیا جائے۔ ان کا نام تاریخ سے مٹا کر یہ کام اب ملک میں منظم طور پر ہو رہا ہے۔ کہیں شور سے کہیں خاموشی سے۔ مسلم طلاق اور مسلمان عورتوں کے تعلق سے بی جے پی کے اقدامات گہرے مقاصد لیے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے ارادوں میںیہ شامل ہے کہ وہ مسلم کنبوں اور خاندانوں میں چپکے سے گھُس کر ان کی ساخت اور کرداروں پر اثرانداز ہو۔ اس کے لیے وہ اپنے آقاؤں کی ایما پر زیر تعلیم ہائی سکولوں اور کالجوں کی لڑکیوں کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔ برقع اور حجاب ترک کرنے کے احکامات بھی کئی کالجوں میں جاری ہونے کی خبریں بھارتی اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔ جو مسلمان طالب علم لڑکیاں معاشی طور پر کمزور گھرانوں سے ہیں، ان میں ہندو دھرم سے قریب ہونے کے رجحان کو تلاش کیا جاتا ہے۔ ایک خاص مقصد سے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دیگر باتوں بشمول ہندی و سنسکرت بھاشا ورسوم اختیار کرنے کی رغبت دلائی جاتی ہے۔ کلاسوں میں ان کے درجات بلند کرنے کے اشارے دیتے ہیں۔ ذرا گنجائش نظر آتی ہے تو ملازمت کا لالچ بھی دے دیتے ہیں۔ دھرم بدلاؤ کی آمادگی پر اچھا رشتہ دلا پانا بھی ممکن بتایا جا رہا ہے۔ اس طرح لڑکی اپنے مذہب سے کٹ جانے میں عار محسوس نہیں کرتی اور غریب ماں باپ کو اس کی کفالت کے بوجھ سے نجات مل جاتی ہے۔ دہلی میں وزارت کلچر کی جانب سے ایوارڈز کی تقسیم کے ایک جلسے کی خبر چھپی کہ مسلمان سے ہندو بنی ایک عورت کو نمایاں ایواڈ سے نوازا گیا۔ تین بار اعلان کیا گیا کہ پہلے یہ مسلمان تھی۔ اس کا نام فلاں تھا اور ہندو سے شادی کرنے کے بعد اس کا نام یہ ہو گیا ہے۔ تاثر یہ قائم کیا گیا کہ دھرم بدلاؤ پر اسے سرکار سے یہ اعزاز دیا جا رہا ہے، جس میں نقد رقم بھی شامل ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں بی جے پی کی خفیہ ایجنڈے کے تحت ایسے کام بھی انجام دئیے جا رہے ہیں۔ علی گڑھ یونیورسٹی، جامعہ اسلامیہ جیسے قدیم تعلیمی مسلم اداروں کو بھی حکومت اپنی تحویل میں لے کر اپنی مرضی سے چلانے کے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔ بھارتی اخبارات میں لکھا گیا کہ پچھلے پانچ برسوں میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سیاست کے نئے کرتب دکھائے ہیں۔ بغیر بیوی کے رہنے والے وزیراعظم نے اپنی تقریروں میں اپنی 56 انچ چھاتی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنا دم خم دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ بیجنگ میں جا کر اہل چین تک کو یوگ آسن دکھایا اور سکھایا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں نریندر مودی جیسا دکھاوے میں کوئی اور شہرت پسند لیڈر نہیں آیا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے، تب سے اس نے اپنے عمل سے ظاہر کیا کہ اقتدار ہر قیمت پر اور کسی بھی طرح حاصل کرنے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ مودی نے سیاست اور قومیت کا تصور ہی بدل دیا ہے۔ اس کے سیاسی فلسفے نے متحدہ کلچر کے خیال کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ بھارت میں کوئی فرقہ پرست پارٹی ایک بار حکومت بنا پائے یا دوبارہ بنالے تو یہ اس سسٹم کی بدولت ہے جو عقل کے بجائے بٹن سے چلتا ہے۔ ہندوستانی اخبارات نے لکھا کہ مودی تم کو 56 انچ کا سینہ مبارک ہو۔ تمہاری صحت کو کسی کی نظر نہ لگے لیکن ہندوستان کی تہہ کے چھپن سوراخ بند کر کے اسے کرپشن سے پاک بے طبقہ سوسائٹی بنائیں تو قابل فخر بات ہو گی۔ تمہاری پارٹی ریزرو بینک، عدلیہ ، تعلیمی اداروں، نصاب ساز کمیٹیوں، گورنروں اورفوج کو ان مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کے در پے ہے جو قومی سے زیادہ فرقہ وارانہ ہیں اور نیشنلزم کے آفاقی تصورات کے منافی ہیں۔ غیر جانب دار مہذب بین الاقوامی سوسائٹی اس رجحان کو پسند نہیں کرتی اور کسی ایک مذہب کی پہچان کے ساتھ پوری قوم کو دہشت گرد قرار دینے کی حمایت بھی نہیں کرتی۔ یہ ساری باتیں انسانی چارٹر کے خلاف ہیں۔ آخر میں ہندوستان کے مشہور شاعر اور فلمی نغمہ نگار گلزار کی نظم پیش ہے:۔؎
نئی دلّی میں ویسے تو نیا کچھ بھی نہیں ہے
مگر ہر پانچ سالوں میں نئی سرکار آتی ہے
پُرانے مسئلے لے کر، نئے منصوبے کرتے ہیں
میانیں کھینچ کر پھر سے
وہ زنگ آلودہ سب قانون پھر سے آزماتے ہیں
کہ جن سے گھاس کٹتی ہے، نہ گردن!
کیا ہم پاکستان کے بارے میں بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ
نئی سرکار آئی ہے
مگر نیا کچھ بھی نہیں
اسی لیے تو زیادہ لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ
’’ہمیں پُرانا ہی چاہیے‘‘