اسمبلی کو نااہل کہنا ، لعنت بھیجنا ، سلیکٹڈ کہنا عوام کی توہین ہے

میثاق کے نام پر ایک مرتبہ پھر سیاست دان عوام کے ساتھ مذاق کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔ اس سے قبل پاکستان کی سیاست میں ہونے والے میثاق جمہوریت کو میثاق میں شامل ایک حصہ نے یہ کہہ کر میثاق کو رد کردیا تھا کہ ’’ میثاق جمہوریت کوئی قرآنی نسخہ نہیں ‘‘ یہ سیاست دان جنکی جماعت ، سیاسی سوچ دنوں، مہنیوں ، سالوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں تبدیل ہوتی ہے یہ کسی معاہدہ کا پاس رکھنے کے قابل نہیں ، انکے قول و فعل لمحوں میں تبدیل ہوتے ہیں اور وہ یہ سب کچھ نہائت ڈھٹائی سے کرتے ہیں یہاں میں ’’ بے شرمی‘‘کا لفظ استعمال نہیںکررہا کہ وہ معیوب لفظ ہے ۔ اسمبلی میںخطاب کرنے کی ٹھرک نے حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوںکو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ ایک معاہدہ کریں کہ ایک دوسرے کی تقریر کے دوران ایوان کو مچھلی بازار نہیں بنائینگے اس معاہدے کے تحت مچھلی بازار والا منظر ختم ہوچکا ہے مگر دونوںجانب سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ مشورے نہیں بلکہ ایک دوسرے پر الزامات ، بقول حکومتی اراکین سابقہ حکومتوں نے اتنا ’’ کھا لیا ‘‘کہ اربوں ڈالرز مزید قرضے لینے کے باوجود حالات قابو نہیں آرہے ۔ ایک ستم اور ہے کہ اسمبلی کی کاروائی براہ راست عوام کو دکھائی جاتی ہے اور اس ذریعہ سے اسمبلی اور اسکے اراکین سے براہ راست انکی ’’مخولیاں ‘‘دیکھ کر عوام کے دلوں میں انکے لئے کوئی محبت کا عنصر نہیں بلکہ منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں نو ماہ سے زائد ہوگئے ہیں اب بہتر تو یہ تھا کہ کرپشن کا چورن بیچنے کے بجائے حالات کو قابو لانے کیلئے کوششیں تیز کی جائیں۔خوب شور شرابے کے بعد اب حزب اختلاف مسلم لیگ ن ، اور پی پی پی نے معاشی معاملات پر حکومت کو ساتھ چلنے کی دعوت دی ہے ، جسے پی پی پی کی سابقہ رکن اور حالیہ حکومت کی مشیر اطلاعات حزب اختلاف کے ساتھ چلنے کو ’’خوف ‘‘ سے تشبہہ دے رہی ہیں کہ یہ لوگ اب پھنس چکے ہیں تو میثاق معیشت کی بات کررہے ہیں۔ پاکستان کے دوست ممالک کو پاکستان کی ضرورت ہے وہ اسے ہنستا کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسلئے معاشی سدھار کیلئے وہ پاکستان کی ہر ممکن مدد کررہے ہیں اب ان لوگو ں کوخاص طور پر جنکے ہاتھ میں حکومتی باگ ڈور ہے انہیں تختہ سیاہ کی صفائی کرکے نئی راہیں اپنانی چاہیںتاکہ ملک کسی طرف تو چلے ۔ یہ بات ہمارے حزب اختلاف والوں کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے چونکہ ہمارے پاس بدقسمتی سے مورثی سیاست ہے ، یا یوں کہا جائے کہ گنے چنے لوگ ہیں جو کبھی حزب اختلاف اور کبھی حزب اقتدار میں ہوتے ہیں نظریہ سب کا ایک ہی ہے اسلئے کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں جیسا ماحول ہو وہی نظریہ اپنا لیتے ہیں ، آج کی حکومت میں یا نئے پاکستان میں صرف وزیر اعظم یا انکے چند لوگ جو سال سے انکے ہمراہ سیاست کررہے تھے باقی وہی ہیں جو اپنے آپ کو ELECTABLE کہتے ہیں یہ دراصل ELECTABLE نہیں اور نہ عوام کے دلوں میں انکے لئے بے انتہاء محبت ہے کہ انہیں بار بار ووٹ دیکر عوام اسمبلیوں میں پہنچا دیتے ہیں ہ بلکہ اکثریت مورثی سیاست ، جاگیر داروں، سرمایہ داروں کی ہے جو ہر حکومت میںکہیں نہ کہیں ہوتے ہیںجیسے میںنے ابھی تحریر کیا کہ نظریہ نام کی تو کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بد قسمتی سے تاحال صرف اور صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی دونوںجانب سے ابھی تک بجٹ، یا معیشت پر کوئی مثبت پیش رفت نظر آ رہی بلکہ موجودہ بحث مباحثہ میں حکومت وقت کیلئے ایک خوش آئیند بات ہوئی کہ مسلم لیگ ن جو اس وقت پنجاب کی حد اپنے تعمیری کاموں کی وجہ سے مضبوط تھی اس میں داڑیںپڑتی نظر آنے لگی ہیں۔ صحیح یا غلط مریم نوا ز کی سوچ اپنے والد میاں نواز شریف سے ہم آہنگ ہے جبکہ میاں شہباز شریف حکومت کے ساتھ شائد سخت ہوں مگر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے نہائت نرم گوشہ رکھتے ہیں اسلئے ان تکالیف سے دور ہیں جو میاں نواز شریف کو درپیش ہیںمیاں نواز شریف کو پابندسلاسل رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے یہ خیال کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کی بات کرتے ہیں اسکے متعلق سخت زبان استعمال کرتے ہیںتو ریکارڈ کے مطابق کوئی سیاست دان اس میں پیچھے نہیں رہا بشمول حکومتی اراکین پی پی پی ، مسلم لیگ کے دیگر زعماء بھی اسٹبلشمنٹ کے متعلق گمراہ کن بیان بازی کرتے رہے ہیں۔بارہا لکھا ہے اور یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے کہ کرپشن کے خلاف تحقیق کو منصفانہ بنایاجائے جو ابھی تک منصفانہ نظر نہیںآرہا اسکا آغاز سابقہ ریٹائرڈ چیف جسسٹس ثاقب نثار کی مہربانی و نظر کرم ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف اور شفافیت نظر نہیں آرہی ۔ حکومت مضبوط حزب اختلاف مسلم لیگ ن کی صفوںمیںدراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہوچکی ہے ، مشترکہ اپوزیش اتحاد ، حزب اختلاف کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی آرزو اس صورتحال میں صرف آرزو ہی ہے ، اسلئے حکومت اطمینان سے خود اور حز ب اختلاف میںموجود اپنے بہی خواہوں کے ذریعے آئی ایم ایف کے تیار کردہ یا اسکی خواہش پر ڈالی گئی شقوں کو بجٹ کو منظور کرائے ، اور سیاسی ماحول کی درستگی کیلئے فردوس عاشق ایوان، کو چھٹی پر بھیجے ، تحریک انصاف کے خواجہ سعد رفیق یعنی مراد سعید کو بھی غیر ملکی دورے پر بھیجے ، تو کون میں خوامخواہ ؟ ہمارے دوست جنکی آمد کے ساتھ نو ماہ میں سترہ حادثے ٹرین کو ہوچکے ہیں اور پرانے انجنوں و ریل کے ڈبو پر رنگ کراکے خود ہی اسکا افتتاح بطور نئی ٹرین کردیتے ہیںاپنے محکموںپر توجہ دینے کی ہدائت دی جائیں تاکہ جمہوریت کا ماحول نظر آئے ۔ چونکہ یہ اسمبلیاں عوام کے ووٹون سے بنتی ہیں ملک کا اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے ، اسمبلی میں بلا ضرورت چنگھاڑنے کا بھی پیسہ لیتے ہیں جو عوام کے ٹیکسوں سے جاتا ہے اسلئے نہ اسمبلی نا اہل ہے نہ اس پر لعنت بھیجنا چاہئے ، نہ اسکے اراکیں سلیکٹڈ بلکہ elected ہیں اسمبلی پر لعنت بھیجنا ، یا اسکے اراکیں کو (slected) کہنا پاکستان کے سیاسی نظام اور22کرور عوام کی توہین ہے ۔