درمیانی عمر چہرے کی جھریاں سورج کی تمازت سے مزید نمایاں ہو گئی تھیں۔ دل کی بے چینی، گھبراہٹ سے کھلا ہوا منہ، بند کرنے کی کوشش کیسے کامیاب ہوتی کہ اوسط انسانی قد سے بھی چھوٹی دیوار کی اوٹ کا سایہ صرف آدھے دھڑ کو مل سکتا تھا وہ بھی تپش سے جھلستا ہوا۔ ساتھ بیٹھی دوسری خاتون ہاتھ والے پنکھے سے ’’اپنی ماں‘‘ کو ہوا دینے کی ناکام کوشش کر رہی تھی نجانے ہمارے عہد کی ہر جدوجہد، ہر وعدہ، ہر پروجیکٹ، ہرلیڈر ’’ناکام‘‘ ہوتا جا رہا ہے۔میں نو ڈیرو میں مصروف تھا۔ کراچی کی گرمی سے لاعلم رہا ’’دستخطی سائیں سرکار‘‘ کیا نوڈیرو برفانی علاقہ ہے کہ نقط انجماد میں دبنے صوبائی صدر مقام آپ کی یادداشت سے خارج ہو گیا۔
مرے کو مارے شاہ مدار
ایک وزیر نے خوب راگ چھیڑا کہ گرمی سے ہونے والی اموات کے ہم ذمہ دار نہیں۔ وفاق اور وزارت بجلی کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔ پائوں رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہ شیلف کو آہستگی سے پکڑے انداز میں دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ’’زمین کے اوپر بنے قبرستان‘‘ یاد کرنے کی سعی میں تھا۔ یہ ایک ’’سرد خانہ‘‘ کی تصویر تھی جہاں فرش کی نذر ہونیوالے بے ‘‘قیمت انسانوں‘‘ کے ڈھیر پڑے تھے جن سے ووٹ لیکر ان کے نام پر ’’کھربوں روپے‘‘ ڈکار گئے ان کے متعلق فرمایا کہ مرنے والے لوگوں کا مقدمہ عدالت میں لڑا جائیگا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی بابت پورا چارٹ سامنے تھا پھر وفاق پر ذمہ داری کیسے؟ 5 کروڑ کی آبادی کا شہر ذمہ داری کے تعین میں لاوارث کی سٹیج پر کھڑا حق نمائندگی کے ایوانوں کو حسرت، حیرت سے تک رہا ہے۔ موت کے رقص کو شروع ہوئے آج چھٹا دن ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف مصنوعی بارش کرانے کی تجویز تاحال زیر غور ہے۔ سندھ حکومت نے حکمرانی بے حس کی قدیم تاریخ کو بھی شرمندہ کردیا۔ منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ’’6 دن‘‘ ہوگئے قبرستانوں کی آبادی بڑھتے ہوئے مگر کرسیوں پر براجمان الزام ہزاروں میل دور ’’وفاق‘‘ پر دھر رہے ہیں۔ نہ تو گرمی پہلی مرتبہ پڑی اور نہ ہی یہ ’’سرپرائزوزٹ‘‘ پر ہمارے وطن میں آئی۔ ’’50 نہیں، 100 نہیں، 900 افراد‘‘ سورج نے نگل لئے۔ اس کو کیا غرض کہ اسکی کرنوں سے کتنے لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔ آسمانی حکم کے تابع فرمان کا تو کام ہی طلوع ہونا اور حرارت فراہم کرنا ہے زمین کا نظم و نسق سنبھالنا تو ’’اراضی مالکوں‘‘ کا کام ہے۔ کائنات کی ہر چیز اپنے مالک کے مقرر کردہ راستے، متعین کردہ ضابطے، وقت کے مطابق رواں دواں ہے۔ تو پھر زمینی فرائض سے غفلت کیوں؟ اپنے ووٹرز کے حقوق ادا کرنے میں حکم عدولی کا ہے کو، مینڈیٹ سے چشم پوشی کا کوئی ٹھوس جواز؟ جو لوگ موت کے سر کس (تھر) میں مغلیہ دربار سجا کر شاہی پکوانوںسے لطف انداز ہو چکے۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
تھر کے قحط کے بعد کراچی کی قیامت خیز گرمی کو ’’وفاق نے بارش‘‘ آندھی کو ذمہ دار ٹھہرا کر دامن چھڑوا لیا۔ موت کا اپنا دکھ تو ہے ہی مگر تکلیف تب بڑھ گئی جب مردوں کو لیجانے کیلئے ایمبولینس نہیں مل رہی تھیں اور تدفین کیلئے قبر نہیں۔ مان لیا کہ آسمان سے سورج کا قہر موت کا پیغام بن کر برسا مگر ازاں بعد صورتحال سے نمٹنے میں تساہل کیوں برتا گیا۔ اپنے نام کیساتھ بڑے بڑے عہدے لگانے والے، ان عہدوں کی بدولت میلوں لمبے کا نوائے لیکر چلنے والے اس سانحہ کو رونما ہونے کے اسباب کیوں نہیں ختم کر پائے۔ توانائی بحران کا سورج ’’اونچے ایوانوں‘‘ کے درو دیوار پر کیوں طلوع نہیں ہوا۔ گرمی محلات کے دالانوں میں کبھی نہیں اتر پائی، اسی سبب اقتدار کی راہداری میں چاہئے ایک آدمی کی موت ہو یا پھر 500 کی مسائل حل کرنے کی خواہش ہے۔ نہ فکر مندی کی کوئی رمق۔ ہر دو اطراف الزام تراشی اور خطوط بازی کا میلہ سجانے پر زور ہے۔ زور تو ’’پکوان سٹال‘‘ سجانے پر بھی ہے نعشیں اٹھاتے گھروں میں یہ خبر یقینا خوشی سے نہیں سنی گئی کہ سرکار نے افطار پارٹی کر ڈالی، سرکار نے سوچا کہ مداوا نہیں کرسکے۔ آفت سے لا علم رہے تو کیوں نہ غم کومٹانے کی تدبیر کی جائے۔
Let's Celebrate the Deaths
حسب روایت ’’اللہ تعالیٰ‘‘ سے التجائیں رنگ لے آئیں۔ آفات، سانحات سے نمٹنے پر مامور سینکڑوں ادارے تو فرض شناس میں فیل ہوگئے مگر قوم کے پرچہ جات پاس ہوگئے، ابرکرم برسا اور خوب جم کر برسا، پچھلے سال انہی دنوں میں ایسا ہی موسم تھا۔ ایسی ہی لاعلمی، بے حسی تھی مگر ’’رحمتوں کے مالک عظیم الشان‘‘ کے ہاں سے نالوں، آہوں کا جواب آیا اور خوب آیا۔ ہم کو اس مرتبہ سیلاب کی کیفیت، خطرناک صورت میں نظر آ رہی ہے۔ تو ذمہ دار ادارے غافل کیسے ہو سکتے ہیں جن کے سپرد ہی یہ امور ہیں۔ جن کی میزوں پر پل پل کی خبریں پہنچتی رہتی ہیں ان کو سد باب کرنے کا آغاز کر دینا چاہئے۔ ملک میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی مہم شہریوں کی سطح پر شروع ہونی چاہئے۔ ندی، نالوں کی کھلائی، صفائی کا عمل نیت سے کڑی نگرانی کے ساتھ شروع ہو جائے۔ بارش نے تو برسنا ہے۔ طوفانوں نے آنا ہے وہ اپنے حکم فرائض سے پیوستہ ہیں آپ بھی تو اپنے ذمہ کام نمٹائیں
’’ایک اور عام تعطیل کا ظہور‘‘
’’اسمبلی کے ٹھنڈے ماحول‘‘ میں گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں پر خوب تماشا لگا۔ کسی نے سیاست چمکائی، کسی نے پرانی رنجش، فقرات کا بدلہ لینے میں لمحہ بھر کو توقف نہیں کیا بہر حال آرام پسندوں کیلئے خوش خبری کہ قومی تعطیلات کے شیڈول میں ایک مزید ’’عام تعطیل‘‘ کا اعلان۔ پوری قوم کام نہ کرنے پر رو رہی تھی سرکار نے بقیہ جان بھی شکنجے سے چھڑالی۔
وزیراعلیٰ پنجاب توجہ فرمائیں۔
اس وقت پنجاب بھر میں امتحانات ہو رہے ہیں۔ ایک شدید گرمی اوپر سے بجلی ندارد، تو ہم کیسے قوم کے مستقبل کو روشن کرسکتے ہیں۔ ’’علامہ اقبال ٹائون‘‘ میں ’’اوپن یونیورسٹی‘‘ کے ریجنل آفس واقع رضا بلاک میں پچھلے 3 ماہ سے ٹرانسفارمر کام نہیں کر رہا۔ 3 منزلہ عمارت میں متبادل بجلی کا کوئی انتظام نہیں سینکڑوں طالبات نے رو رو کر بتایا کہ روزے کی حالت میں امتحان دینا کسقدر عذاب ناک تھا۔ ہم نے ’’مقامی انچارج‘‘ سے رابطہ کرنے کی متعدد مرتبہ کوشش کی مگر موصوف سے فون نہیں اٹھایا۔ بہت ساری بچیوں نے پرچہ حل نہیں کیا۔ آپ کی توجہ چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38