رمضان اور آداب تجارت
ڈاکٹر محمد نوید ازہر
(پی ایچ ڈی)
رمضان المبارک میں جہاں ایک طرف اہل ایمان رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں وہاں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جس کا روزگار اس مہینے سے وابستہ ہے۔ یہ لوگ سال بھر اسلامی اصول تجارت کی دھجیاں اڑانے کے بعد اس حد تک اسلامی تعلیمات سے غافل ہو چکے ہوتے ہیں کہ دھوکا دہی اور بددیانتی ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ ان لوگوں کی ساری توجہ اپنے سامان تجارت کی فروخت اور زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول پر مرکوز ہوتی ہے۔ یہ لوگ نماز اور روزے کو بھی ساتھ ساتھ رکھتے ہیں لیکن محض آلہ کار کی حیثیت سے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اسلامی آداب تجارت جن سے آج پورا یورپی معاشرہ جگمگا رہا ہے مگر پاکستانی اپنے معاشرے کے ظلمت کدے میں روشنی کے ضامن نہیں بن سکتے۔ پاکستانی قوم دنیا کی وہ واحد قوم بن چکی ہے جو اپنے عیدالفطر جیسے مقدس تہوار پر اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر غریبوں کی خوشیوں پر ڈاکا ڈالتی ہے۔
اسلامی آداب تجارت میں عدل و انصاف کو بنیاد بنایا گیا ہے اور تقوے کو اسی میں پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’انصاف کرو، وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے‘‘۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ تاجر جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی دوسرے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرے۔ جو چیز اچھی ہے اسے ہی اچھا کہہ کر بیچے۔ ناقص چیز کو اچھا کہہ کر نہ بیچے۔ جھوٹ بول کر چیز کے وہ اوصاف بیان نہ کرے جو اس چیز میں موجود نہیں۔ بلکہ اگر تاجر کو آخرت کی جوابدہی کا احساس ہے تو جو اوصاف چیز میں موجود ہیں ان کے بیان میں بھی مبالغہ کرنے سے گریز کرے۔ چیز بیچتے ہوئے جھوٹی قسم کھانا بدترین گناہوں میں سے ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: جھوٹی قسم رزق سے برکت کو ختم کرنے والی ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم) آج کا تاجر یہ گمان کرتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے اسے زیادہ منافع حاصل ہو گا حالاں کہ وہ اپنے اس فعل سے اپنے رزق میں کمی کر رہا ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان پر نگاہ کرم نہیں فرمائیں گے۔ (1) متکبر عیال دار (2) دے کر احسان جتانے والا (3) سامان تجارت کو قسم کھا کر بیچنے والا۔
بازار کا نرخ چھپانا بھی آدابِ تجارت کے منافی ہے۔ جب کوئی قافلہ باہر سے مال لے کر آئے اور شہر کے کچھ لوگ شہر سے باہر نکل کر ان سے مال خریدیں اور شہر کے نرخ (Rate) کے سلسلے میں جھوٹ بولیں تو یہ سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو جب بیچنے والے کو اصل بھاؤ کا علم ہو جائے، اسے خرید و فروخت کو فسخ (Cancel) کر دینے کا اختیار ہے۔ (بخاری و مسلم) اسی طرح گاؤں کا کوئی آدمی چیز بیچنے شہر آئے اور شہر کا کوئی آدمی دھوکے سے غلط نرخ بتا کر چیز خرید لے تو یہ حرام ہے۔
بعض لوگ مہنگائی کی توقع پر اشیائے خورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں۔ اسلام میں یہ ظلم کے مترادف ہے۔ حضورؐ کا فرمان ہے: ’’جس نے چالیس روز تک غلے کو روکے رکھا، اس کے بعد وہ غلہ صدقہ کر دیا، تو یہ صدقہ اس گناہ کا کفارہ نہیں بنے گا جو اس نے ذخیرہ اندوزی کی صورت میں کیا ہے‘‘۔ (دیلمی عن علیؓ) ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: جس شخص نے چالیس روز تک غلے کی ذخیرہ اندوزی کی تو وہ اللہ سے بری ہوا اور اللہ اس سے بری ہوا۔‘‘ (احمد، حاکم) ارشاد نبوی ہے: ’’جو شخص باہر سے غلہ خرید کر لائے اور اسی روز کی قیمت پر فروخت کر دے گویا اس نے وہ غلہ خیرات کر دیا‘‘۔ (حاکم)
چیز بیچتے ہوئے اس کے عیب کو چھپانا بھی عدل کے منافی ہے۔ خریدار کو تمام چھوٹی بڑی خامیوں سے آگاہ کرنا واجب ہے۔ بصورت دیگر یہ اقدام دھوکا دہی میں شمار ہو گا۔ ناقص کپڑا پہلے دکھایا اور اعلیٰ جتنی تعریف کی۔ یا اچھا نمونہ دکھایا اور دیتے ہوئے گھٹیا دے دیا تو یہ سب دھوکا دہی ہے۔ حضورؐ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو غلہ فروخت کر رہا تھا۔ آپؐ کو وہ غلہ پسند آیا، لیکن جب غلے کے اندر ہاتھ ڈالا تو وہ بھیگا ہوا تھا۔ دریافت فرمایا کہ غلہ اندر سے کیوں بھیگا ہوا ہے؟ اس شخص نے عرض کیا۔ بارش سے بھیگ گیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: اگر ایسا تھا تو یہ بھیگا ہوا غلہ اوپر رکھتے تاکہ دھوپ سے خشک ہو جاتا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ (مسلم) آج کے تاجر کا خیال ہے کہ چیز کی خامی ظاہر کرنے سے تجارت میں خسارہ ہو گا۔ لیکن ذرا حضورؐ کے ارشادات گرامی ملاحظہ فرمائیے: آپؐ نے فرمایا: ’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز اس کا عیب بتائے بغیر فروخت کر دے۔ اور نہ اس شخص کے لیے خاموش رہنا جائز ہے جو اس کے عیب سے واقف ہو‘‘۔ (حاکم، بیہقی) حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے، حضورؐ نے فرمایا: تاجر اور خریدار سچ بولتے ہیں اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کرتے ہیں تو ان کے بیع (سودے) میں برکت عطا کی جاتی ہے اور جب جھوٹ بولتے ہیں اور عیب چھپاتے ہیں تو برکت کھینچ لی جاتی ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
چیز کی مقدار میں کمی کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ آج کل گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے بازار کی نسبت نرخ کچھ کم کر لیا جاتا ہے اور دوسری طرف مقدار میں بھی کمی کر لی جاتی ہے۔ یا پھر کم مقدار کو زیادہ بتا کر پیکنگ میں بیچا جاتا ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وزن میں احتیاط کی جائے اور مقدار کو اچھی طرح تولا جائے۔ تاجر کو چاہیے کہ وہ خریدار کو اسی طرح تول کر دے جس طرح خود اس نے خریدتے ہوئے لیا تھا۔ ارشاد ربانی ہے: بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے اپنا حق ناپ کر لیں تو پورا لیں اور جب کسی کو ناپ یا تول کر دیں تو گھٹا کر دیں‘‘۔ (المطفغین (1:
احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ دکاندار کچھ زیادہ کر کے دے تاکہ چند گرام کی خاطر ہلاکت نہ خریدے۔ حضورؐ نے ایک چیز خریدی تو دکاندار سے فرمایا: ’’جھکتا ہوا تولنا‘‘۔ (حاکم) سورہ رحمن میں ارشاد ربانی ہے: ’’وزن کو انصاف کے ساتھ پورا کرو اور تولنے میں کمی نہ کرو‘‘۔ (رحمن)
مذکورہ بالا احکام کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے اس لیے ان کا معاملہ حقوق اللہ سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی بھرپور خیال رکھنا چاہیے تاکہ حقوق العباد کی تلفی کہیں ہماری عبادات کو قبولیت کے شرف سے محروم نہ کر دے۔