اللہ تعالیٰ کے دو تحفے رمضان اور قرآن
پروفیسر ڈاکٹر محمد مزمل احسن شیح پی ایچ ڈی
الحمدوللہ وحدہ و الصلوٰۃ و السلام علی من لانبی
انسان اشرف المخلوقات ہے:
ہدایت کیلئے انبیائ:
سیدنا آدمؑ دنیا میں بھیجے گئے تو ان کو ہدایت بھی عطا کی گئی۔ انسان جب بھی بگڑے اور فساد کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے نبی بھیجے تاکہ اصلاح کریں۔ یہاں تک کہ نافرمانی کی وجہ سے امتوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ آخر کار رسولوں کے سردار خاتم الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ؐ تشریف لائے۔ جاہلیت کے اس دور میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے ہر زمان و مکان کے لئے ہر انسان کی ہدات کیلئے قرآن مجید نازل فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے۔ اس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا جس مومن نے مضبوطی سے تھام لیا‘ وہ فلاح پا گیا۔ لہٰذا قرآن مجید سے وابستگی ہی میں ہماری نجات ہے۔
فتنوں سے دفاع:
سیدنا محمد رسول اللہؐ نے فرمایا ’’آگاہ ہو جائو کہ عنقریب ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے۔‘‘ سیدنا علی ؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ؐ اس سے دفاع کیسے ممکن ہوگا؟‘‘ ارشاد ہوا ’’کتاب و اللہ قرآن مجید سے۔‘‘
سنتوں کے پروانے:
ہر دور قرآن مجید کا اصلاحی دور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رسول اطہر ؐ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا تاکہ آپؐ کے انتہائی مصفی شفاف دلی سے صحابہ کرام ؓ کے مقدس دلوں تک پہنچ کر اصلاح امت کا ذریعہ بنے۔
امتوں کی سرداری:
رسول اکرم سیدنا محمدؐ کی بعشت امتوں کی سردار امت مسلمہ کیلئے اللہ کا احسان عظیم ہے۔ آپ نے چار فرائض کی ادائیگی سے چار چاند لگا دیئے۔ 1: تلاوت آیات‘ 2: تزکیہ نفوس‘ 3: تعلیم قرآن (کتاب)‘ 4: تعلیم حکمت (سنت) جب ہم تلاوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری زبان سے ہمارے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی زبانوں کو ہر غیبت‘ بہتان‘ جھوٹ‘ گالی اور فحش کلام سے ناپاک ہونے سے بچانا چاہئے۔
اصل ہدایت:
اللہ نے قرآن عطاء فرما کر جو احسان فرمایا اس کا شکرانہ یہ ہے کہ تلاوت کے علاوہ یقین ایمان کے ساتھ سمجھیں۔ پھر عمل کریں اور دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے ایک عہد کیا تھا لہٰذا ہمیں اس عہد کا ایفا کرنا چاہئے۔ سورت فاتحہ میں اللہ نے ہمیں ہدایت مانگے کا حکم دیا ہے۔ ہدایت کا معنی ہے (ا) سیدھا راستہ دکھانا‘ (ب) اس پر چلانا‘ (ج) ابلیس شیطان‘ ہمارے نفس‘ بری صحبت اور اللہ کی نافرمانی حکومت (طاغوت) سے محفوظ رکھنا اور (د) منزل مقصود تک کامیابی سے پہنچانا۔ یہ سب اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ سیدھا راستہ نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوں اور صالحین کا ہے۔
انسانوں کی قسمیں:
قرآن مجید نے انسانوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔مومن‘ کافر‘ اورمنافق۔ یہ وہ مسلم ہیں جو عقائد ایمان کے ساتھ ارکان اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ جو توحید‘ رسالت اور آخرت کے منکر ہوتے ہیں‘ شرک کرتے ہیں۔ جو توحید و رسالت (کلمہ طیبہ) کا اقرار تو کرتے اور ارکان اسلام بھی بجا لاتے ہیں‘ لیکن دل میں کھوٹ ہوتا ہے۔ ریاکار اور دل سے اسلام کے دشمن ہوتے ہیں۔ یہ جہنم کی تہہ کے اندر ابدی عذاب سے دوچار رہیں گے۔ قرآن پاک میں مختلف مقامات کے علاوہ اللہ نے تین سورتوں میں مومنوں‘ کافروں اور منافقوں میں ان کا ذکرکیا ہے۔ اور رسول کریم ؐ کو مشرکوں‘ کافروں کے علاوہ منافقوں سے بھی جہاد کا حکم دیا گیا۔ اسلام دین اکمل ہے۔ اسلام‘ سلامتی کا دین‘ امن و امان کا داعی ہے۔
تین مضامین:
قرآن مجید کے دس پارے اللہ کی توحید کی تفصیل پر مبنی ہیں۔ مشرک کی بخشش نہیں ہوگی‘ (ب) دس پارے امتوں کے حالات پر مبنی ہیں کہ اللہ سے بخاوت کرے کوئی بھی قوم فلاح نہیں پا سکی۔ ہاں البتہ یونس ؑ کی امت توبہ کرکے ‘ اللہ کے عذاب سے بچ بھی گئی تھی۔ لہٰذا آج ہماری بچت بھی توبہ استغفار سے ہی ممکن ہے۔ (ج) دس پارے عقائد ایمان‘ ارکان اسلام اور قبر حشر نشر جنت جہنم کی تفصیل پر مبنی ہیں تاکہ ہم اعمال کی اصلاح کرکے صالح بن کر جہنم سے بچ کر جنت کے حقدار ہوں۔
خاص مضامین:
سورت فاتحہ تو ہے ہی تمام صحیفوں‘ تختیوں اور توریت زبور انجیل سے اعلیٰ تحقہ جو صرف اس امت کو عطا ہوا۔ اس کے بغیر صلوٰۃ کی کوئی رکعت مکمل نہیں ہوتی۔ پھر سورۃ بقرہ کا آخری رکوع‘ بنی اسرائیل کا رکوع‘ دو و تین‘ سورۃ فرقان کا آخری رکوع‘ سورۃ لقمان کا دوسرا‘ سورۃ توبہ کی آخری آیات‘ سورۃ مومنوں کی آخری آیات‘ پہلا رکوع اور آیات 57 سے 62 تک۔ سورہ تحریم کا آخری رکوع‘ سورۃ یاسین ‘ مکمل‘ سورۃ ممتحنہ کا آخری رکوع‘ سورۃ حج کا آخری رکوع‘ سورۃ مریم کا تیسرا رکوع‘ سورۃ کہف کا پہلا اور آخری رکوع‘ سورۃ نساء کی پہلی آیت‘ سورۃ الخل کی آیت 90‘ سورۃ الاحزاف کا آخری رکوع‘ سورۃ الرحمن‘ سورۃ الملک‘ سورۃ الحشر کا آخری رکوع ضروری ترجمہ سمیت مطالع فرمائیں۔ سارا قرآن پڑھنا اور سمجھنا تو ہے ہی‘ انشاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت:
اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت قرآن مجید سے محبت ہے۔ قرآن حکیم سے محبت کی علامت رسول اللہ ؐ سے محبت ہے۔ رسول اقدس ؐ سے محبت کی علامت سنت سے محبت ہے۔ سنت سے محبت کی نشانی آپ کے فرامین مبارک (احادیث) سے محبت ہے۔ بدعت سے نفرت کا ثبوت آخرت کی فکر ہے۔ انسان کیلئے اس کا ثبوت دنیاداری سے بے زاری اور مال حلال کو اللہ کی مخلوق پر خرچ کرنے میں ہے۔
قرآن آسان ہے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (ترجمہ) ’’اور ہم نے یقینا یقینا قرآن کو نصیحت (ذکر) کیلئے نہایت آسان کیا ہے۔ سورۃ القمر پ 27 میں بار بار یہ سوال ہے کیا کوئی ہے اس نصیحت کا ادراک حاصل کرنے کا شوق رکھنے والا؟
قرآن سے دوری:
قرآن بار بار پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس کی تلاوت کی پابندی نہ کرنا‘ حکموں کی پروا نہ کرنا‘ اس کے خلاف اعمال کرتے چل جانا‘ قرآن کو چھوڑ دینا ہے۔ سیدنا محمد رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے قرآن پڑھا مگر اس کو بند کرکے گھر میں معلق کردیا‘ ان اس کی تلاوت کی پابندی کی‘ اس کے حکموں پر غور کیا‘‘ قرآن قیامت کے رو ز اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ کے دربار میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندے نے مجھے چھوڑ دیا تھا ۔ اب آپ اس کے اور میرے درمیان فیصلہ فرما دیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کا دعویٰ:
شافع روز جزائ‘محمد رسول اللہ ؐ قیامت کے روزاللہ کے دربار میں ایک دعویٰ کریں گے (ترجمہ) اے میرے رب! یقینا یہ میری قوم ہے۔ انہوں نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔(سورۃ الفرقان پ 19, 18 آیت 30) ۔سوچیے کہ اگر قرآن اور حمت للعالمین ؐ ہی ہمارے خلاف دعویٰ کریں گے تو کون ہماری شفاعت کرے گا؟