دہشتگردی اتنی بڑی مصیبت ہے کہ کمبل کی طرح چمٹ جاتی ہے اور پھر جان نہیں چھوڑتی۔ دہشتگردی کی یہ وباء معاشروں کو برباد کرتی ہے اور قوموں کے مزاج میں تشدد، مایوسی کے علاوہ ذلت پرستی کو داخل کر دیتی ہے۔ دہشتگردی کے رنگ اور مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح بخار کی اقسام اور اسکے خفیہ نقصانات علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ دہشتگردی ایک چھوٹے بچے سے شروع ہو کر سلطنت کے بادشاہ تک کو اپنی نحوستوں سے متاثر کرتی ہے، متاثر کرنے سے مراد ہے کہ دہشت گردی کا ذوق بھی بہت ہی دلکش اور دلفریب ہوتا ہے یعنی دہشتگردی کر کے لطف محسوس ہوتا ہے۔ انا کو تسکین ملتی ہے، پھر اپنی خود عزتی کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے۔ دہشت گرد ایک محلہ میں بھی ہوتا ہے۔ اس سے بڑا پورے شہر کا دہشتگرد ہوتا ہے۔ پھر صوبہ، ملک اور عالمی سطح تک یہ انسان سوز رویہ متکبر اور جارحیت پسند انسانوں میں اترتا جاتا ہے اور ہر چھوٹا دہشت گرد بڑے دہشتگرد کا نائب اور کارکن ہوتا ہے۔یہ رویے ذاتی اور انفرادی حد تک نہیں رہتے بلکہ تنظیموں، جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں کے ذمہ داروں کے دماغ سے ہوتے ہوئے انکے دل کی دنیا پر قابض ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کی بڑی اقسام، حکمرانوں، سیاستدانوں، تاجروں اور ذمہ داروں ارباب بست و کشاد کی صورت میں ملاحظہ کرنا نہایت آسان قرار دیا گیا ہے۔ صاحبو! پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا گلی ڈنڈا میچ تین دھائی کا عرصہ لیکر ملنگانہ اور قلندرانہ انداز سے جاری رہا ہے۔ کبھی کبھی کوئی گلی اٹھا کر ادھر ادھر کردیتا ہے تو ایک فریق خوش ہوتا ہے کہ چلو ڈنڈا تو اپنے ہاتھ میںہے، وہ نیک اور صالح بن کر بے نیازی اور بے فکری میں ڈنڈا گھماتا پھرتا ہے۔ کبھی کسی پر برسایا اور کبھی کسی کو دکھایا۔ اچانک خاموش فرشتوں کا ڈنڈا گھومتا ہے تو بے چارے ڈنڈا بردار کھلاڑی کو احساس ہوتا ہے کہ میچ تھوڑی دیر کو بند کرتے ہیں اور میثاق، میثاق کی شطرنج شروع کرتے ہیں۔ اس شطرنج کی گوٹیاں وہی بے چارے تاجر، سیاسی بیوپاری اور نجانے کتنے بے نام فیلے ہوتے ہیں جو اپنے وقت پر داخلہ اور خزانے کے منہ پر آن بیٹھے ہیں۔ پھر میثاق ہو جاتا ہے اور باریاں لینے کا نظام الاوقات اور اپنی اپنی اوقات کا مکمل تعین کرلیا جاتا ہے۔ مل جل کر کھیلنے اور پیار سے نبھاہ کرنے کا عہد شکن عہد پیمان ہوتے رہیں۔آجکل پیپلز پارٹی کے سدا بہار وراثتی لیڈر ابوبلاول ابن حاکم علی المسمٰی محترم آصف علی زرداری سابق صدر پاکستان سرپرست اعلیٰ حزب اختلاف کبیرالمشہور پیپلز پارٹی کے چھتر چھائوں کا مزاج سیاسی نہایت درجہ برہم ہے۔ وہ شدید غصے کے عالم میں چومکھی خطاب کو مختلف عنوانات پر تقسیم کرکے قوم، ملک، سلطنت کو دہشت زدہ کر رہے ہیں کہ ہماری اہلیہ خلدمکانی نے جب جام شہادت نوش فرمایا تو پاک دھرتی میں برے حالات کی آندھی چلی تھی لیکن ہم نے تو پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔ آخر ہر بات کی حد ہوتی ہے اور بہت سے عنوانات کا ایک ایک جملہ ادا فرمایا کہ لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور کان کھل گئے۔ زبانیں گنگ ہو گئیں۔سب کو معلوم ہے کہ ملک میں لشکری اور سیاسی دہشت گردی کو وہ لوگ خفیہ اور غیر محسوساتی امداد فراہم کر رہے ہیں جو مذہب کا نام لے کر پاکستان، پاکستان اور افواج پاکستان کو طعن و تشنیع کی نوک پر ہمہ دم رکھتے ہیں۔ افواج پاکستان کے شہداء کو شہید حق ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ لوگ کبھی بھی عوام الناس میں مقبول نہیں رہے ہیں۔ مذہب کو دہشت کا لبادہ اوڑھا کر اپنی سیاست کے ریچھ کو توانا کرتے ہیں۔ اپنی منزل اور اپنا پروگرام کچھ بھی نہیں ہے۔ چھپ کر وار کرنا انکا سیاسی جہاد ہے۔آجکل انکی خاموش محبتیں بائیں بازو کی سیاست کو مضبوط کرنے کیلئے بے تاب رہتی ہیں۔ دائیں بازو والوں سے تو ان کا عارضی ناطہ کل وقت شرائط پر طے ہے۔کراچی میں اب امن کے قیام کی تیز آندھیوں نے ان روایتی دہشتگردوں کے خانہ ہوش میں کھلبلی مچا دی ہے۔ کچھ لوگ تو پیدائشی بھتہ خور ہیں کچھ لوگ بھارت کے وظیفہ خوار تھے ان کا دین دھرم بھارت ہے اور کچھ لوگ دیکھا دیکھی جفتہ مزاج ہو گئے۔ یہ لوگ سیاسی بھی ہو سکتے ہیں۔ اب اگر امن قائم کرنیوالی قوتوں نے بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالا ہے تو مگرمچھ پورے دریا میں تلاطم پیدا کرینگے اور چھینٹیں اڑا اڑا کر دوسرے خاموش لوگوں کو بھی متاثر کرینگے اس لیے دریا کا مفاد دیکھیں ساکنان دریا چھوٹی مچھلیوں، غریب کچھوئوں اور نادار مینڈکوں کی زندگی کا تحفظ ہی تو ضروری ہوتا ہے۔ان حالات میں زرداری صاحب کے سیاسی قبیلے پر اگر کچھ ناخوشگواری کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو اس کا ذکر اور درد کی بے تابی کا ذکر ان کا حق ہے لیکن پاکستان کھپے اور اسکی حد کا طعنہ دینا زیادتی کے زمرے میں آ جائیگا۔ پاکستان پر احسان جتانے والوں کو اپنے ماضی کا حال ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پاکستان رہا تو یہ کلغیاں اور سیاستکاریاں بھی سلامت ہیں۔ سندھ ہو یا پنجاب، سرحد ہو یا بلوچستان، ہر جگہ کا وڈیرہ ، سردار، چوہدری اور خان سب ہی تو انگریز سرکار کے اشارہ ابرو پر اپنی نگاہوں کی عقیدت نچھاور کرتے تھے اور ہندو ساھوکار سے کچھ مانگ کر اپنے توشتۂ نعمت کو آباد رکھتے تھے۔جناب آصف زرداری ایک حوصلہ مند، جفاکش اور جدوجہد کرنیوالے سیاسی کارکن اور لیڈر ہیں۔ وہ سابق صدر پاکستان ہیں، انہیں ہر گز ہر گز سندھی نہیں ہونا چاہیے انکی سیاسی عظمت اور وقار کا شناختی نشان پاکستانی ہوتا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024