پانی ایک قدرتی ذخیرہ اور اللہ پاک کی بیش بہا نعمت ہے جسکے بغیر تصور حیات بھی ممکن نہیں۔ لیکن انسان نے اپنی تن آسانی، ظاہر ی مفاد اور لا پرواہی کے سبب اسی نعمت کو اپنے لئے زحمت بنا لیا ہے۔دنیا کی آبادی 7 ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن اس دار فانی میں مقیم لوگ نہ تو ایک جیسے رنگ و نسل، تہذیب و تمدن اور مذہب و نظریات کے حامل ہیں اور نہ ہی ان کے طبعی حالات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ افسوس ہے کہ صحراویباباں، ارض و سما اور بحرو بر کو مسخر کرنیوالا انسان غربت کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ ایک اندازے کیمطابق دنیا میں 3 ارب انسان آج بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان میں سے ایک ارب 70 کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ان میں بیشتر لوگ کاروان حیات کو رواں دواں رکھنے کیلئے تالابوں، جوہڑوں اور نالوں کا گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ دو ارب سے زائد افراد ہر سال غیرمعیاری پانی پینے کے باعث مختلف بیماریوں کاشکار ہوتے ہیں۔ دنیا میں کل بچوں کی تعداد 2 ارب 20 کروڑ سے زائد ہے جن میں سے نصف یعنی ایک ارب سے زائد بچے بہتر معیاری خوراک، صاف پانی، طبی اور مناسب رہائش کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ہر سال 14 لاکھ نو نہال آلودہ پانی کے استعمال کے سبب پیدا ہونیوالی بیماریوں کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔اگر ہم اپنے پیارے وطن پاکستان پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی صاف پانی کی دستیابی کے حوالے سے حالات حوصلہ شکن نہیں۔ (PCRWR) پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کیمطابق پاکستان کے صرف پندرہ فیصد شہری اور اٹھارہ فیصد دیہی علاقوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔ بیماریوں کے پھیلائو اور ان کے بچائو کے حوالے سے (PMA) پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کیمطابق پاکستان میں مضر صحت کھانے اور آلودہ پانی کے باعث معدے اور چھوٹی آنت میں سوزش کی بیماری عام ہے۔ علاوہ ازیں ڈائریا، اسہال، ہیضہ، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور نمونیا جیسی مہلک بیماریوں کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ناقص خوراک کی وجہ سے ہونیوالی اموات کے بارے میں کوئی باقاعدہ اور معیاری اعدادو شمار تو دستیاب نہیں لیکن پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کیمطابق محض آلودہ پانی کے استعمال کی بدولت سالانہ 30 لاکھ افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جبکہ لاکھوں افراد ان جان لیوا بیماریوں کی تاب نہ لاتے ہوئے، مسافران عدم کے قافلے میں شریک ہو جاتے ہیں۔پانی صحت مند معاشرے کی اولین اور بنیادی ضرورت ہے لیکن آئے دن تلخ حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد اللہ کی یہ بیش بہا نعمت ملک کے بیشتر علاقوں میں غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں پینے کیلئے دستیاب پانی انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر ہے۔ملک میں موجود پینے کے پانی کا نظام بہت پرانا اور ناقص ہے۔ پانی کی فراہمی کیلئے زیر زمین بچھی پائپ لائن کے نہایت بوسیدہ خستہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے نہ صرف مختلف جراثیم بلکہ گٹروں کا گندا پانی بھی با آسانی صاف پانی میںمل جاتا ہے۔ جو نہ صرف لوگوں کیلئے پریشانی بلکہ بے شمار مہلک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ پانی کے اسٹوریج یا ٹینکوں کی صفائی کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ایک اندازے کیمطابق تقریباً 80% بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں اور 5 سال سے کم عمر 40% بچوں کی اموات بھی اسی آلودہ اور گندے پانی کے سبب ہوتی ہیں۔ڈاکٹر حضرات مریضوں کو بیماریوں سے بچنے اور صحت مند رہنے کیلئے تازہ سبزیوں کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ بھی مضر صحت عناصر سے محفوظ نہیں۔ لاہور ہی کو لیجئے دریائے راوی کے گردو نواح میں موجود بیشتر دیہات میں اگنے والی فصلوں کو صاف پانی کی بجائے قریب بہنے والے گندے نالے کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ پیدوار میں اضافے کیلئے مضر صحت کیمیائی کھاد استعمال کی جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں دیہات کے ارد گرد لگائے گئے کارخانوں سے خارج ہونیوالا زہریلا مواد پانی میں حل ہوکر جہاں جہاں سے گزرتا ہے اس علاقے کی غذائی اجناس میں اپنا زہریلا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ رہی سہی کسر سبزی فروش نکال لیتے ہیں جو سبزیوں کو ترو تازہ رکھنے کیلئے بار بار گندے پانی سے دھوتے ہیں۔ ادرک لہسن کو تادیر تازہ رکھنے کیلئے تیزاب سے دھویا جاتا ہے۔ پھلوں پر مصنوعی روغن چڑھایا جاتا ہے۔ اور طرح طرح کے کیمیائی مادوں سے انہیں محض ذاتی مفاد کیلئے قبل از وقت تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے عوامل ہیں جوکھانے پینے کی اشیاء کو غیر محفوظ بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسی سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے صحت مند اور تندرست زندگی کی خواہش بے سوداور عبث ہے۔ صد افسوس کہ ان مضر صحت عوامل کی روک تھام کیلئے حکومت کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہی اور مفلس عوام نیلا تھوتھا اور آرسینک ملا زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔خدمت خلق کے جذبے سے لبریز محمدرمضان چشتی نے انجینئر محمد حسین کی زیر نگرانی لاہور میں دو مقامات (بادامی باغ اور جوڑے پل) پر منرل واٹر کے پلانٹ نصب کئے ہیں‘ جو خالصتا اللہ کی رضا کیلئے ہیں PCSIR کی رپورٹ کیمطابق یہ پلانٹ بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہیں لوگ یہاں سے روزانہ ہزاروں گیلن پانی فی سبیل اللہ حاصل کرتے ہیں۔ بے شک ایسے درد دل رکھنے والے لوگوں کیلئے اللہ نے اجر عظیم تیار کھا ہے۔ محمد رمضان چشتی جیسے لاکھوں لوگ پاکستان میں موجود ہیں انہیں بھی اللہ سے تجارت کرنے کیلئے آگے بڑھنا چاہیے راوی کے کنارے آباد کھوکھر گاوں اور شاہدرہ میں صوبائی وضلعی حکومت اور مخیرحضرات کو صدقات و عطیات سے ہسپتال اور شفا خانے بنانے کیساتھ ساتھ معیاری منرل واٹر کے پلانٹ بھی نصب کروانے چاہیں تاکہ عوام تک صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے اس سے مہلک بیماریوں کی وجوہات کا بھی سد باب ہو گا ۔ اگر عوام کو پینے کا صاف پانی مل جائے تو آدھی سے زائد بیماریوں کا سرے سے وجود ختم ہوسکتا ہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024