ملکہ کوہسار اور گلیات کے مسائل
سردار محمد زرداد
ملکہ کوہسار مری اور گلیات کے شہزادے پہاڑی سلسلے ایک تن اور کئی چوٹیوں کا منظر پیش کرتے ہوئے میرن جانی ٹاپ سے مشرق کی طرف کوہالہ سے اس پار راولا کوٹ ملکہ مغرب میں تربیلہ جیل تک نظریں پہنچتی ہےں۔ نتھیاگلی سے پیدل ٹریک میرن جانی تک بنایا گیا۔ بکوٹ نمبلی میرہ چیف الیکشن کمیشن سردار رضا کے آبائی گاﺅں اور نتھیا گلی کا جنکشن بھی اس مقام پر ہے ۔ یہ ٹریک کا شارٹ راستہ ہے۔ خاموش جنگل کے درمیان تین راہوں سے گزرتے ہوئے پتھروں کو روندتے ہوئے صدا بہار اٹھارہ پتیوں والے پھول اپنے مصدر کے ساتھ لاتعداد اجتماع میں لہلہاتے خوش آمدےد کہتے ہیں
نظر کو اپنے بے پناہ حُسن اور خوش تربیتی میں مگن پیار بڑھانے کا انداز دل کو بہا تے ہوئے پیدل سفر کے حُسن کو دوبالا کر نے میں پرندوں کا شور و غل چڑیاں چہچہاتی ہوئی کانوں کے پاس سے گزرتی سامنے درختوں کے پہلو میں موجود جھاڑیوں میں آویزاں گھونسلے ڈیرے جمائے بے خوف و نڈر چڑیوں کا پیار دیکھ کر اقبال کی’ایک آرزو‘ بے ساختہ یاد آتی ہے۔ جوں جوں ٹریک بلندی ظاہر کرتا ہے دیگر چوٹیاں پستی کیطرف دکھائی دیتی ہیں۔ ٹریک سے نیچے دیکھےں تو سبرزے کی شال مٹی اور پتھروں کو لپیٹے ایسے ریشمی لباس سے نظریں اٹھانے کو جی نہیںکرتا۔ اور قالین میں بلند درختوں کے مابین خوبصورت پر اسرار ٹریک بل کھاتا پہاڑ سے گزرتا سیاحت کے جذبے کے قدردانوں کے لئے منفرد مقام کے مشرق سے مکمل مشرق تک کوہالہ دریا کی گزر آسانی سے دیکھائی دیتی ہے۔ فضاءدھوندلی نہ ہو تو راولاکوٹ تک آپ بصیرت کے ترکش سے نظر کے تیر نشانے پر داغ سکتے ہےں اسی تیر سے دوسرا نشانہ آپ مغرب کی جانب نگاہیں پھیریں تو آپ تربیلا کی ہمسائیگی کی کرنیں ’شیروان ‘کے پہاڑ دکھائی دیں گے
ملکہ کوہسار مری کو اعزاز حاصل ہے اور ینگ جنریشن میں ایسی شخصیات جو اپنی قلیل عمر میں معاشرے میں ایک مقام رکھتے ہیںہوٹل ایسوسی ایشن کے عہدیدار یاسر عباسی جو کاروباری حلقہ احباب سے وابستہ ہوتے ہوئے عوامی خدمت کے لئے کوشاں ہیں۔خطہ کوہسار بانسرہ گلی تبلیغی مرکز جاوا سے تعلق رکھنے والے ندیم اخلاص عباسی بھی ایسے ہی منفرد اور خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں جو قومی سیاست میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست میں بھی فعال متحرک نظر آتے ہیں خطہ کوہسار میں جو بھی تنظیمیں مختلف پلیٹ فارم سے کام کر رہی ہیں ان میں انجمن تاجران مری ہوٹل ایسوسی ایشن مری سٹی فورم مری بار کونسل پریس کلب ومری الیکٹرونک میڈیا اور دیگر تمام سیاسی مہذبی جماعتوں کے ساتھ مظبوط قریبی تعلقات رکھتے ہوئے تحصیل مری کے مسائل کے حوالے سے اور تحفظ حرمت رسول کے حوالے سے ہمیشہ ہ راول دستے کا کردار ادا کرتے رہے ہیںاور عملی طور پر بلدیاتی نظام انصاف عوام کی دہلیز پر بہام پہنچانے کے لئے امیدوار کونسلر کے لئے لوگوں کے مطالبے پر سامنے آئے ہیں اور وہ عوامی خدمت کا ارادہ رکھتے ہوئے جذبہ خدمتگاری کےساتھ عملی میدان میں اترے ہوئے ہیں ندیم اخلاص عباسی نے نوائے وقت سے خصوصی نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملکہ کوہسار مری اور گلیات کے دلکش پر فضا مقامات جنت نظیر ہیں لیکن مری شہر اور گردونواح کے باسی جس طرح بانسرہ گلی چئیر لفٹ کے قریب اٹھارہ کروڑ روپے کے فنڈ سے ایک پارک تعمیر کیا گیا ملک بجلی کے بہران سے دوچارہے اور اس پارک کی مصنوعی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے شاخرچیوں کی روایت ڈالی گئی اسی طرح مری بس ٹرمینل کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا لیکن گاڑیوں کے پارک کرنے کی گنجائش نکالنے کے بجائے لاری اڈاہ میں ایک پارک کی صورت کچھ بیٹھنے کی جگہ ساتھ پودے اور گھاس لگا کر گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ کو پرµکر دیا گیا ۔پانی میسر نہ آنے کی وجہ سے واش روم تعمیر کرتے ہوئے تالے لگا دیئے گئے حالانکہ پانی بورنگ کرتے ہوئے زمین سے مل سکتا تھا جو کہ اب بھی عملی اقدامات اٹھانے سے واش روم کے استعمال کے لئے پانی کی فراہمی کے مواقع موجود ہیں جنہیں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مری جیسے سیاحتی اور حساس مقام پر خاتون پولیس افسر کی تعیناتی بھی سوالیہ نشان ہے عرصہ دراز تعینات تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال کے ایم اس اور دیگر افسران کی تعیناتی منتخب نمائندوں کی حصہ داری کا زریعہ جانی جاتی ہے جو کہ ایک بڑی پارٹی کے اثر انداز ہونے سے معاملات جو ںکے توںہیںاور غریب آدمی کے جائز کاموں کی بھی شنوائی نہیں ہوتی؟
اسسٹنٹ کمشنر کے علم بھی مشکلات سے دوچار علاقوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی اور ہائی وے مری کے دفتر درخواست گزاری متعلقہ محکمہ کے SDO نے تخمینہ لگانے کا اعتماد دلایا لیکن ابھی تک مسائل جوں کے توں ہیں کروڑوں روپوں کے فنڈ غیرضروری کاموں پر بے جا خرچ ہو رہے ہیں اوراہم شارع کارٹ روڈ کو کھلا کرنے کی اشد ضرورت ہے ابو ظہبی روڈ جو نالیاںنہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہو گئی اسطرح کارٹ روڈ پر 200فٹ نالی ہے نہ بنا کر لاکھوں روپے سے بننے والی سڑک خراب ہو رہی ہے اور ایک بڑی لینڈ سلائیڈنگ بھی چل پڑی ہے اور ابو طہبی روڈ کے مکینوں کے گھروں میں برساتی پانی داخل ہورہا ہے ۔یونین کونسل گھوڑاگلی ایم پی اے راجہ اشفاق سرور کا آبائی ہوتے ہوئے بھی مسائل سے دو چار ہے یہاں سڑکوں کی ابتر حالت بنیادی ضرورتوں کا فقدان پینے کے پانی کا مسئلہ دیرینہ ہو چکے ہےں جسکی طرف توجہ کی اشد ضرورت ہے الیکشن کمیشن نے یو سی گھوڑاگلی سے یونین کونسل دھارجاوا کا قیام عمل میں لایا۔ اہالیان علاقہ کی خواہش کے مطابق ان علاقوں کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے قیام میں لا کر حکومت پنجاب نے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں ۔گاﺅں جاوا مسائل کی آماجگاہ ہے اس کی سڑکیں جو کھنڈرات کا منظرپیش کر رہی ہیں بانسرہ گلی تبلیغی مرکز کے قریب کافی عرصہ سے ایک دیوارگری پڑی ہے لیکن متعلقہ محکمہ ہائی کو بنانے کی توفیق نہ ہو سکی جسے تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسی گاﺅں کا اکلوتا پرائمری سکول بھوت بنگلہ کا منظر پیش کئے ہوئے ہے چار کنال اراضی معززین علاقہ نے خرید کر محکمہ ایجوکیشن کے سپُرد کی لیکن عمارت کے لیے فنڈز میسر نہ آ سکے اور زمین عمارت تعمیر ہونے کے انتظار میں ہے؟ این ٹی ایس پاس کرنے والی مقامی طالبات قریب پرائمری سکول جاوا میں تعینات نہ ہو سکیں جو محکمہ تعلیم کے افسران کی نا اہلی کا ثبوت ہے اور اس سکول میں آسامیاں بھی موجود ہیں اور ٹیچر تعینات نہ ہونے کی وجہ سے طلباءوطالبات کا مسقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے بنیادی صحت مرکز نہ ہونے کی وجہ شہر کے ہسپتال میں مریضوں کو پہنچاتے ہوئے اخراجات برداشت کیے جا رہے ہیں آسمان پر بادل دکھائی دینے کے ساتھ ہی بجلی بنداور آنکھ مچولی شروع ہو جاتی ہے جو گھنٹوں جاری رہنے کے بعد ہیلے بہانوں کا سبب بن رہی ہے پختہ راستوں کی اشد ضرورت ہے۔
میرن جانی گلیات کی سب سے بلند چوٹی ہے جو کے سطح سمندر سے کئی ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے اور پھر مکش پوری چوٹی جو یہاں آنے والوں کو چاند تارے کا منظر پیش کرتے ہوئے قیمتی جڑی بوٹیوں اور بھینی بھینی خوشبوں کا زریعہ بھی ہے۔ اس پہاڑی سلسلہ کو ملانے کے لئے ٹریک موجود ہیں لیکن روڈ بنانے کی اشد ضرورت ہے اور یہاں دنیا کی سب سے بڑی چیئر لفٹ بھی لگائی جا سکتی ہے یہ علاقے کسی بڑے انوسٹر گروپ ملک ریاض جیسے مضبوط سرمایا دار کے منتظر ہیں۔ چونکہ موجودہ وفاقی حکومت کے بڑے ان حلقوں سے کامیاب ہوتے رہے اور جنت نظیر بنانے کے دعوے بھی کرتے ر ہے ہیں ان کے محل نما بنگلے بھی گلیات کے سیاحتی ٹھندے علاقوںمیں موجود ہیں اور گلیات کے علاقوں کی خوبصورتی جنگلات قدرتی گیس کی فراہمی سے بچائے جا سکتے ہیں ۔حکمران ان علاقوں کی مخلوق پر نظرکرم کرتے ہوئے ذمہ داری کا احساس کریں۔
اور خدا کرے کے حکمرانوں کو ان قدرتی اےر کنڈےشن اےرےاز کی طرف توجہ کی توفےق ہو؟